تاریخ اور ہم

جاوید قاضی  جمعرات 14 ستمبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

تاریخ بھی عجیب پیمانہ ہے۔ یہ موضوع کوئی رومانوی نہیں، نہ ہی کوئی داستان ہجر ہے نہ وصل، نہ قصیدہ ہے نہ بادشاہ سلامت کی دربار میں بیٹھا مورخ جو پوری تاریخ کو بادشاہ سلامت کی منشاء سے رقم کرتا ہے، اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ ریاست خود ہی تاریخ کو مسخ کرنا شروع کردیتی ہے اور پھر تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت میں ہم بہت دور نکل آئے ہیں لہٰذا جب مڑ کر دیکھتے ہیں تو وہی تاریخ دْھندلی سی نظر آتی ہے، پھر اْسی دْھند کو ہم تاریخ سمجھنے لگتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ہمیں اپنی تاریخ کو اب آزاد کرانا ہوگا، اْن شکنجوں سے جس میں وہ ستر سال سے قید ہے ۔آج جس موڑ پر ہم ہیں اْس کی وجہ تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت ہے جو ہم نے والہانہ انداز میں اپنائی ہے۔

سوویت یونین میں یہ کام گوربا چوف نے کیا تھا۔ جمہوریت سے ناپید سوویت یونین اپنے بیانیے Narrative میں اس قدر ڈوبا کہ اس کو خبر ہی نہ ہوئی کہ اْس کے اردگرد کیا ہوا؟ اور جس نے اِس بیانیہ کو ٹھیک کرنے یا بدلنے کی کوشش کی اْس پر تہمتوں کے انبار لگ گئے۔ بہر حال پروانے مچلنا کب چھوڑتے ہیں، انھیں تو آگ میں اپنے آپ کو راکھ کرنا ہوتا ہے۔

یہ سْخن جو ہم نے رقم کیے سب ورق ہیں تیری یاد کے

کوئی لمحہ صبحِ فراق کا کوئی شام ِہجر کی مدتیں

(فیضؔ)

بڑے بڑے دعوے ہیں ایمانداری کے، کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم نے تاریخ کے ساتھ کبھی انصاف کیا۔ تاریخ کو مسخ کرنا کیا بے ایمانی نہیں ہے؟ ارتقاء کی یہ منزلیں پھر اس طرح طے ہوئیں کہ تاریخ خودایک ’’سائنس‘‘ ٹھہری۔ آرکیا لوجی کیا ہے؟دنیا میں بیتے وہ اَ دور جس پر مورخ خاموش ہیں اور اْن کھنڈرات کی تباہ شدہ دیواروں کو تنہائی کا زہر ختم کر رہا ہے مگر وہ کھنڈرات اپنے حالِ بربادی میں خود اپنی زباں ہوتے ہیں اور بولتے ہیں۔ ہم انسانوں کے لیے اِن کا جاننا بہت ضروری ہے۔ ہر ماضی آیندہ کا عکس ہوتا ہے اور ہر مستقبل ماضی کا رقص۔ اگر ماضی کہیں مبہم ہے تو مستقبل بھی کسی بھٹکتی راہ کی مانند ہے۔ ہماری تاریخ جس کو زمانے کے اعتبار اور اَدوارکی حیثیت میں بار بار مسخ کیا گیا، کبھی گھوڑوں کی چال سے کبھی تلواروں کی یلغار سے۔ بربریت کے افسانے ، فاتح اور مفتوح کی داستانیں اور تمام قبیلہ صفت ، وحشی لوٹ کھسوٹ کرنے کے قائل، ہم نے اپنے ہیرو بنا دیے۔ جو بھی درہ خیبر سے داخل ہوا اور مقامی لوگوں کو مفتوح کیا ہم نے اْسے فاتح بنا کر تاریخ میں اْس کی دلیری کے قصے لکھے۔

ہمارے پاس عائشہ جلال جیسی مورخ بھی ہیں اور ایسے بہت سے مورخ بھی جوعائشہ جلال سے مختلف اور اْلٹ ہیں عائشہ جلالHistoricist ہیں۔ وہ تاریخ کو اْس کی مادی حقیقتوں سے پرکھتی ہیں ، دعوت دیتی ہیں کہ اس کی پرکھی ہوئی مادی حقیقتوں کوکوئی غلط ثابت کرے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے ہمیں کہ پاکستان مختلف اکائیوں کا مجموعہ ہے جو اپنے اَدوار میں کبھی آزاد وطن کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ اِن اکائیوں کی اپنی زبانیں ہیں، اپنی تاریخ اور اپنی ثقافت ہے فقط مذہب یکساں ہے۔

ہمارا وفاق نہ صرف اِن اِکائیوں کا بلکہ وہ تاریخی ورثہ جو ہم نے بر صغیر سے پایا ہے اْس کا بھی عکاس ہونا چاہیے اور ساتھ ساتھ ہماری اسلامی تاریخ کا بھی۔ یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ اس دنیا میں قبل اسلام بھی ایک طویل تاریخ موجود ہے اور وہ بھی ہمارا اثاثہ ہے۔

آج ہماری نئی نسل مسخ شدہ تاریخ پڑھنے پر مجبور ہے۔اِن بچوں کے نصابSyllabus کو جیسے دیمک لگ چکی ہے۔ کچھ دن قبل جناب اکبر زیدی نے اس نازک موضوع کو چھیڑا تھا اور یہ اعتراف بھی کیا اپنی بد نصیبی کا، کہ وہ سندھ میں پیدا ہوئے اور کراچی میں رہے لیکن اْن کو کبھی بھی سندھ کی تاریخ نہ پڑھائی گئی۔ آج کی نسل کو ذرا بھی معلومات نہ ہونگی کہ ’’ہوش محمد شیدی‘‘ کون تھے جن کی بہادری کا ’’ہوشو شیدی‘‘ کے نام سے کتابوں میں کہیں کہیں مختصراً ذکر کیاگیا ہے۔ مسخ شدہ تاریخ کے بحران میں میرے اپنے دو بچے بھی شامل ہیں۔ بچوں میں تاریخ پڑھنے کا رجحان ہی اب باقی نہ رہا۔ وہ اب شاید سوشل میڈیا میں Escape ڈھونڈتے ہیں۔ انھیں کچھ بھی خبر نہیں کہ وہ کِس تاریخ کے وارث ہیں اورکہاں مستقبل کی راہیں ہیں۔اور ان کی منزل کیا اور کہاں ہے؟

منزل کہاں ہے تیری اے لالۂ صحرائی

پاکستان بن تو گیا مگر جناح دو تھے پہلے وہ جناح تھے جو1916–ء1927ء تک تھے اور ایک وہ جناح ہیں جو 1933–1947ء اور 1947–ء1948ء کے جناح پہلے جناح سے ملنا چاہتے تھے۔

گیارہ اگست1947ء کی جناح کی تقریر بذاتِ خود ایک تاریخی دستاویز ہے جو میری اس بات کو تقویت دیتی ہے۔ جناح ہر دور میںاپنے زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے متحدہ ہندوستان میں اقلیتوں کی جنگ لڑتے رہے۔ ہمارے دو قومی نظریے کو ہندوستان نے پروپیگنڈے کے طور پر اپنی تاریخ کا حصہ بنایا ہے، ہمیں اْس پسِ منظر میں نہیں دیکھنا چاہیے، جب پاکستان وجود میں آیا، دو قومی نظریہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔

یہ دو قومی نظریہ اس وقت بھی تکمیل کو پہنچتا، اگر نہرو اور پیٹل، جناح کی بات مانتے اورہندوستان کے آئین میں ہندوستان کے ٔمسلمانوں کو برابری کی حیثیت دیتے۔

ہمیں اِس تمام بحث اور مباحثے میں الجھنا ہوگا تاکہ ہماری تکمیل ہو اور ہم مکمل بنیں۔ ہم اب بھی ادھورے ادھورے ہیں، شہری اِس پاکستان کے۔ ہم ایسے ہندوستان کے پڑوسی ہیں جہاں اب جمہوریت کے نام پر فسطائیت (Facism) برپا ہے۔ ہمارے بڑوں نے1951ء میں جس خارجہ پالیسی کی جو بنیاد رکھی تھی اور سرد جنگ کے دور میںہم سامراج کا مہرہ بن کر استعمال ہوئے وہ ہماری غلطی تھی۔ ہمیں اِن غلطیوں کا احساس اب ہونے تو لگا ہے مگر مشرقِ وسطیٰ میں ہماری خارجہ پالیسی اب بھی روایتی ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کی تاریخ سے بھی ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

مثال کے طورپر پاکستان کے آئین کی تاریخ ، نظریہ ضرورت کی تاریخ اور پاکستان میں آمریت کی تاریخ، جدید نو آبادیاتی کی تاریخ، وفاقی اِکائیوں اور وفاق کی تاریخ اِن تمام کو ایک نئی سمت دینی ہوگی۔ ہمیں بتانا ہو گا کہ ہم1949ء تک اْس ملک کو آئین دینے سے کیوں کتراتے رہے۔ جنرل ایوب، یحیی،جنرل ضیاء، جنرل مشرف پاکستان کے ہیروز نہیں ہیں کیونکہ کوئی بھی Dictator ہیرو نہیں ہوسکتا۔ ہمیں نئی نسل کو صحیح تاریخ پڑھانی ہوگی۔ ایک ایسی تاریخ جس میں ہار اور جیت دونوں رقم ہوں اور وہ تمام غلطیاں اور غْبار خاطر کے باب سوال وجواب،کمیشن اور رپورٹ جسٹس حمودالرحمٰن یا جسٹس جاوید اقبال کی ہوں۔ ہمیں یہ بتا نا ہوگا کہ افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ میں امریکی مفادات کے ساتھ کھڑا ہونا ہماری غلطی تھی۔

اور اس طرح طویل لسٹ ہے ان غلطیوں کی جن کا اعتراف کرنا ہوگا۔ کیونکہ تاریخ سے بڑا استاد کوئی نہیں اورتاریخ خود ایک سبق ہے جو سیکھنا ہو گا۔

تاریخ رقم کرنا اب درباریوں کے بس کی بات نہیں آپ کتنے بھی تاریخ پر قدغن صادرکر دیجیے وہ ٹھہرتی نہیں، اس نے اپنے راستے پھر خود ہی بنانے ہیں اور ایسے راستے پھر اور بھی بھیانک ہوتے ہیں۔

’’آؤ کہ خواب بْنے کل کے واسطے

ورنہ یہ رات آج کے سنگین دورکی

ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان ودل

تا عمر پھر نہ کوئی حسین خواب بْن سکیں‘‘

(ساحر لدھیانوی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔