چوری

ذیشان الحسن عثمانی  پير 18 ستمبر 2017
حق حلال اور محنت سے کمائی گئی دولت کوئی بندوق کی نوک پر زور زبردستی لے جائے تو کیا قیامت گزرتی ہے۔ فوٹو: فائل

حق حلال اور محنت سے کمائی گئی دولت کوئی بندوق کی نوک پر زور زبردستی لے جائے تو کیا قیامت گزرتی ہے۔ فوٹو: فائل

چوری، ڈاکہ، رہزنی، لوٹ مار اوراس جیسے نجانے کتنے واقعات ہمارے معاشرے میں سینکڑوں کے حساب سے روزانہ ہوتے ہیں۔ حق حلال اور محنت سے کمائی گئی دولت کوئی بندوق کی نوک پر زور زبردستی لے جائے تو کیا قیامت گزرتی ہے؛ یہ کوئی لٹ جانے والے سے ہی پوچھے اور ان واقعات میں آئے روز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ پہلے یہ صرف بڑے شہروں کی آفت سمجھا جاتا تھا مگر اب گاؤں گاؤں قریہ قریہ ان مظالم کا سامنا ہے جو کسی شخص کو مالی طورپر مفلوج کر چھوڑتے ہیں۔

ہمارے بچپن میں اکثر سننے میں آتا تھا کہ فلاں ابن فلاں آوارہ گردی کرتے پکڑاگیا۔ مگر اب جب سے رات رات کے مٹر گشت اورگھومنے پھرنے کا رواج چلا وہ آوارہ گردی کی دفعہ بھی کہیں دفع ہوگئی.

ڈاکہ، چوری بہت بری بات اور گناہ کا کام ہے مگر سوچنے کی بات ہے کہ وہ کیا عوامل، وہ کیا وجوہ ہیں جو ایک شخص کو اتنا گرادیں کہ وہ ایسا کام کرے یعنی کہ اسے اپنے آپ پر چھوڑ اپنے خدا تک پر اتنا بھروسہ نہیں کہ وہ رزقِ حلال سے زندگی گزارسکے گا۔

ہمارے معاشرے میں چوروں کی بہت سی قسمیں ہیں۔

کالے چور: یہ چوروں کی سب سے شریف قسم ہے۔ یہ وہ ہوتے ہیں جو دن دیہاڑے بندوق یا چاقو کے زور پر آپ کو لوٹ لیتے ہیں۔ موبائمل فون، بٹوہ، زیور، لیپ ٹاپ، اے ٹی ایم اور بینک سے نکالے گئے پیسوں کو یہ گدھ کی طرح دیکھ لیتے ہیں۔ مگر یہ بدبخت آپ کی زندگی میں ہی آپ کو نوچ کھاتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے اور حکمرانوں کو بڑھتی ہوئی آبادی، اس سے منسلک کچی آبادیوں اور دولت، علم اور مواقع کی غیر منصفانہ تقسیم یہ سوچ سمجھ کر پالیسی بنانے کی توفیق دے ورنہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

سفید چور: دوسری قسم سفید چوروں کی ہے۔ یہ بڑے جاگیردار، سیاستدان اور اثر و رسوخ والے لوگ ہیں۔ خدا ان کی زندگیوں سے برکت چھین لیں، یہ بڑے بڑے قرض لے کر معاف کروالیتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کے حکومتی ٹھیکے لے لیتے ہیں اور اربوں کا غبن کرجاتے ہیں مگر معاشرے میں اپنی ایک ساکھ رکھتے ہیں۔ جس ملک میں کپڑے دیکھ کر سامنے والے کو دی جانے والی عزت کا تخمینہ لگایاجائے، جہاں محلے میں عزت کی واحد وجہ آپ کی گاڑی کا برانڈ ہو اور جہاں پیسے سے 99 فیصد مسائل حل ہوجاتے ہوں، وہاں یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں۔

منافق چور: تیسری قسم کے چور منافق چور ہیں۔ ہوتے تو یہ بھی چور ہیں مگر انہوں نے محافظ کا چہرہ اوڑھ رکھا ہوتاہے، یہ آپ کے کاروبار میں گھس کر آپ کو کھا جاتے ہیں۔ یہ آپ کے اسٹارٹ اپ آئیڈیا کو چرا کر اپنا اسٹارٹ اپ بنالیں گے، یہ آپ سے سیکھ کر آپ کو گالیاں دیں گے اور یہ مذہب کے نام پر آپ کو مذہب سے دور کردیں گے۔ ان سے اللہ بچائے۔ ہمارے معاشرے میں بمشکل ہی کوئی بچ پایا ہے۔ ہم پاکستان میں پیسوں کی طرح، اللہ کے فضل اور کامیابی کی بھی زکوۃ دیتے ہیں اوروہ یہ کہ لوگوں کا جھوٹ، ظلم اور حسد برداشت کریں اور یہ مون سون کی طرح برستا ہے۔ آپ زکوۃ دیئے جائیں، اللہ کا فضل بھی برستا رہے گا۔

نادیدہ چور: چوروں کی بد ترین نسل غیر مرئی ہے۔ یہ نظر نہیں آتے۔ یہ وساوس اور نفس کی صورت میں آپ پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ آپ کے ایمان، حوصلے، ہمت، امید، لگن اور خوابوں کو چوری کرکے ان کی جگہ بے ایمانی، لالچ، کم ہمتی اور غصہ، مایوسی اور نااہلی کو بھردیتے ہیں۔ یہ چور خودرو جڑی بوٹیوں کی طرح آپ کے ماحول کی وجہ سے آپ کے اندر پرورش پاتے ہیں اور ایک دن تناور درخت بن جاتے ہیں۔ ان کی صفائی کےلیے اللہ کا ذکر،حصول علم اور اچھے اساتذہ بڑے مؤثر ہیں۔

آئیےٖٖٖٖ! غور کرتے ہیں کہ ہم کون سے والے چور ہیں؛ اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں ان تمام چوریوں کی جو ہم نے نماز میں، روزے میں، مشورہ دینے میں اور زندگی گزارنے میں کی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔