باجوڑ ایجنسی میں دہشتگردی کی بزدلانہ کارروائی

دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی سرکشی اور سیکیورٹی فورسز کے مابین جنگ جاری ہے

دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی سرکشی اور سیکیورٹی فورسز کے مابین جنگ جاری ہے ۔ فوٹو : فائل

دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی سرکشی اور سیکیورٹی فورسز کے مابین جنگ جاری ہے جب کہ انتہاپسندوں کی کوشش ہے کہ بدامنی ، تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ سے ریاستی اداروں کو برہم اور امن کی راہوں میں باردوی سرنگیں بچھائی جائیں ، چونکہ دہشتگردوں میں فورسز کا سامنا کرنے کی طاقت دم توڑ چکی ہے اس لیے ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں کا سہارا لیا جارہا ہے جس سے نمٹنے کے لیے بعض اہم حقائق بھی سامنے لائے گئے ہیں، گزشتہ روز باجوڑ ایجنسی کی تحصیل لوئی ماموند کے علاقے تنگی گڑیگال میں سڑک کے کنارے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کی تکنیک کا استعمال اسی طرز پر ہوا جس میں پولیٹیکل تحصیلدار اور لیویز اہلکاروں سمیت 6افراد شہید ہوگئے۔

ریموٹ کنٹرول بم دھماکا اس وقت ہوا جب پولیٹیکل تحصیلدار لوئی ماموند فواد علی لیویز فورس کے ہمراہ اپنی گاڑی میں مذکورہ علاقے میں ایک اور بم ناکارہ بنانے کے بعد واپس آرہے تھے ۔ دہشتگردی کی مذکورہ واردات بزدلی کی انتہا ہے ، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ انٹیلی جنس شیئرنگ مزید نتیجہ خیز بنائی جائے تاکہ حساس علاقوں میں ریڈ الرٹ میکنزم میں کوئی تساہل سرائیت نہ کرسکے۔ لیویز پر حملہ فورسز کی مستعد ی پر حملہ ہے اس لیے ملک میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے جنوری2015ء میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور پیشرفت کی جو رپورٹ اتوار کو سامنے آئی ہے وہ قابل غور ہے، اس کے مطابق نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد 31اگست 2017ء مختلف آپریشنز میں2127دہشت گردوں کو ہلاک اور 5884 دہشت گردوںکو گرفتار اور مجموعی طور پر 177تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا، ملک بھر میں نفرت انگیز تقریر کرنے پر2528 افراد کو گرفتار کیا گیا۔


رپورٹ میں سرچ آپریشن سمیت مزید گرفتاریوں کی تفصیل جاری کی گئی ہے اور ان عناصر کی لمبی لسٹ دی گئی ہے جو نفرت انگیز تقاریر سمیت ریاست دشمن مسلح سرگرمیوں سے ملک کو بدامنی کا شکار بنانے اور بلوچستان و فاٹا میں ترقی اور قیام امن کے اقدامات کو سبوتاژ کرنے میں ملوث ہیں۔ ادھر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کے سیکریٹری کی طرف سے ایک رپورٹ کا اجرا ہوا ہے جس کے مطابق اگست2017کے دوران جسٹس(ر) جاوید اقبال، جسٹس(ر) ڈاکٹر غوث محمد اور سابق آئی جی پولیس محمد شریف ورک پر مشتمل کمیشن نے مبینہ طور پر زبردستی اٹھائے جانے والے افراد کے478کیسوں کی اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں سماعت کی ۔ جہاں تک جمہوری عمل اور آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کا تعلق ہے۔

اس کے تناظر میں جبری گمشدگی سے معاملات داخلی امن کے لیے سنگین تر ہوتے ہیں اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ دہشتگرد اس مسئلہ کواپنے مذموم کاز کو بڑھاوا دینے اور صورتحال کو گڈ مڈ کرنے میں ہر گز کامیاب نہ ہوں، رپورٹ کے مطابق اگست میں478کیسوں کی تفصیلی سماعت کے دوران32لاپتہ افراد کا سراغ لگایا گیا اس طرح اب کمیشن کے پاس لاپتہ افرادکی مجموعی تعداد 1372ہوگئی ہے۔ لازم ہے کہ سیاسی و جمہوری عمل میں شفافیت واضح ہو اورجو کرمنل عناصر قانون کی حکمرانی کے خلاف ہوں انھیں غائب کرنے کے بجائے قانون کے سپرد کیا جائے اور مضبوط پراسیکیوشن کے مطابق ان کے فیصلے عدالت میں ہوں۔
Load Next Story