پاکستانی طالبہ نے پارکنسن مریضوں کےلیے ذہین چھڑی تیار کرلی

نیہا چودھری نے اسمارٹ اسٹک تیار کی ہے جس سے ہزاروں مریض استفادہ کرسکتےہیں۔

نیہا چوہدری اپنی انقلابی پارکنسن چھڑی کے ساتھ۔ فوٹو: بشکریہ یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ برسٹل

LONDON:
برسٹل میں یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ (یوڈبلیو ای) میں زیرِ تعلیم پاکستان کی ہونہار طالبہ نیہا چوہدری نے پارکنسن کے مریضوں کےلیے ایک اسمارٹ چھڑی بنائی ہے جس سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد استفادہ کرسکتے ہیں۔

تفصیل کےمطابق نیہا چوہدری کے دادا پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے اور گزشتہ سات برس تک ان کے والد کے جوڑ سخت ہوجاتے تھے جس سے وہ بار بار گر کر زخمی ہوجاتے تھے۔ اسی مناسبت سے یہ چھڑی مریض کے جوڑ میں اکڑن اور سختی محسوس کرکے ارتعاش پیدا کرتی ہے اور مریض دوبارہ بحال ہو کر پھر سے چلنے لگتا ہے۔



نیہا نے یو ڈبلیو ای میں گریجویشن کے دوران یہ چھڑی تیار کی تھی جس سے خود برطانیہ کے 125000 پارکنسن مریض استفادہ کرسکتے ہیں اور یہ اسٹک عضلات اچانک جامد ہوجانے پر تھرتھراہٹ پیدا کرکے مریض کو دوبارہ چلنے کے قابل بناتی ہے۔

اس اہم ایجاد کو برطانیہ میں ہزاروں افراد پر آزمایا جاچکا ہے اور خود برطانوی نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) اور پارکنسن کی تنظیم نے اس میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اب نیہا نے ایک کمپنی کی بنیاد رکھی ہے جسے 'واک ٹو بیٹ' کا نام دیا گیا ہے۔ نیہا نے بتایا کہ جب یہ چھڑی مریضوں کو دی گئی تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ نمایاں تھی اور اکثریت نے کہا کہ یہ چھڑی واقعی کام کی ہے۔




نیہا چوہدری اپنی انقلابی پارکنسن چھڑی کے ساتھ۔ فوٹو: بشکریہ یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ برسٹل

'اس ایجاد کی کامیابی ہی میری سب سے بڑی خوشی ہے۔ پارکنسن کا کوئی علاج نہیں کیونکہ دوائیں صرف اس کیفیت کو ٹال دیتی ہیں جبکہ مریض چلتے چلتے گرجاتا ہے کیونکہ اس کے اعضا اور پٹھے منجمد ہوجاتے ہیں،' نیہا نے بتایا۔ انہوں نے اس کام کو 2014 میں اپنے فائنل ایئر پروجیکٹ کے طور پر شروع کیا تھا۔

پلاسٹک سے بنی ہلکی پھلکی چھڑی میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کے تحت سینسر لگائے گئے ہیں جو چلنے والے کے قدم رکنے کو فوری طور پر محسوس کرتے ہیں۔ اس کا احساس کرتے ہی چھڑی خودکار اندازمیں ارتعاش خارج کرتی ہے اور مریض دوبارہ چلنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

اس چھڑی کا ڈیزائن سادہ اور روایتی رکھا گیا ہے تاکہ لوگ مریض اور اس کی تکلیف کی جانب زیادہ متوجہ نہ ہوسکیں۔ نیہا نے بتایا کہ انہوں نے کئی ماہ تک مریضوں سے ملاقات کی اور اسپتالوں کا دورہ کرکے ڈاکٹروں سے بھی مشورہ لیا۔

https://www.youtube.com/watch?time_continue=2&v=KdEpKtPasQM

نیہا چوہدری اب ماسٹرز کے آخری مراحل میں ہیں تاہم انہوں نے واک ٹو بیٹ کمپنی کا بہت سا کام برسٹل کی روبوٹکس لیبارٹری میں انجام دیا ہے۔ البتہ ان کے ساتھ ایک ناخوشگوار واقعہ اس وقت پیش آیا جب ان کے کاغذات مکمل نہ ہونے پر انہیں 14 روز میں برطانیہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ اس وقت تک وہ اپنے پروجیکٹ کےلیے ایک لاکھ برطانوی پونڈ کے بقدر رقم جمع کرچکی تھیں۔ تاہم جلد ہی برطانوی محکمہ داخلہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے نیہا کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت دیدی ہے۔
Load Next Story