جمہوریت بہترین انتقام ہے

رئیس فاطمہ  اتوار 5 اگست 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے! لوگوں کو تیر، تلوار، خنجر اور بندوق سے نہ مارو، صرف جمہوریت کی ٹوپی پہنادو۔ پھر دیکھو جمہوریت کی کارگذاریاں اور اس کی برکتیں۔ اب یہی دیکھ لیجیے۔ جمہوریت کی دلہن ہے لیکن اندھیرے میں بیٹھی ہے، جو ملک ایٹمی پاور ہے، وہاں بجلی نہیں ہے، لیکن جمہوریت تو ہے! آٹا نہیں ہے، چاول نہیں ہے، پانی نہیں ہے، لیکن جمہوریت تو شکر ہے کہ رونق افروز ہے۔ ریلوے ختم ہو چکی، ہوائی جہازوں سے پرندے ٹکراتے ہیں کہ اب ایئرپورٹ پر پرندے مارنے والے شوٹر ناپید ہیں، فضائی کمپنیوں کو محض اپنے منافعے سے مطلب ہے۔ مسافر مریں یا پائلٹ یا ایئر ہوسٹس اور اسٹیورڈ جاں بحق ہوں۔

کمپنیوں کا انشورنس تو پکا۔ نجی شعبے میں چلنے والی ائیرلائن کا حادثہ ابھی لوگ بھولے نہیں ہیں، ان پر پابندی تو کیا لگنی تھی، پارٹنر اپنا اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔ ایک پارٹنر جو اپنا جہاز ایک اور نجی کمپنی کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے، انھیں ذمے داروں نے اس میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اب جمہوریت کا ایک اور انتقام دیکھیے۔ دنیا بھر میں ریلوے ذرایع آمد و رفت کا ارزاں اور محفوظ ذریعہ ہے۔ لیکن پاکستان میں ٹرانسپورٹ مافیا سے مل کر اسے ختم کیا گیا تاکہ عام آدمی یا تو فضائی سفر کے مہنگے اخراجات برداشت کر لے یا بسوں کے رحم و کرم پر ہو اور دھکے کھاتا اپنی منزل پہ آدھا سوتا آدھا جاگتا پہنچے۔ اور جب بس سے اترے تو اس کی دونوں ٹانگیں شل ہو چکی ہوں اور وہ لنگڑاتا ہوا گھر پہنچے۔

جمہوریت کا ایک اور خوبصورت چہرہ بدامنی، مہنگائی، لوٹ مار، ڈکیتی کی شکل میں بھی موجود ہے۔ ڈالر مشرف کے دور میں کتنے کا تھا اور اب کتنے کا ہے؟ پراپرٹی کی قیمتیں اس حد تک گر گئی ہیں کہ لوگوں کا سارا سرمایہ ڈوب گیا ہے۔ جو پلاٹ 20 لاکھ کا تھا، اس کے اب کوئی 10 لاکھ بھی دینے کو تیار نہیں کیونکہ جمہوریت نے لوگوں کی جیبیں خالی کر دی ہیں۔ ان کی قوتِ خرید ختم کر دی ہے، کیونکہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جمہوریت کہتے کسے ہیں؟ کیا جعلی ڈگری ہولڈر ایم این اے اور ایم پی اے کو؟ یا جمہوریت کا مطلب ہے عورتوں کو برہنہ کر کے سر بازار رسواکرنا یا انھیں زندہ دفن کر دینا۔ جمہوریت کسی ایک صوبے کی تہذیبی روایت ہے؟ یا پھر قطار لگا کر ووٹ کی پرچی پر اپنے وڈیرے یا جاگیردار کے حکم پر ٹھپّا لگانے کا نام جمہوریت ہے، یا پھر جمہوریت کا خمیر پاکستان میں اٹھا ہے، ان خصوصیات سے:

’’ج‘‘ سے جبر (جمہوریت جبر ہی کا دوسرا نام ہے)۔

’’م‘‘ سے مافیا (مافیا کی جتنی قسمیں پاکستان میں ہیں، شاید دنیا میں کہیں بھی نہ ہوں گی)۔

’’ہ‘‘ سے ہاتھ صاف کرنا۔ (قومی خزانے اور قومی اداروں میں ہاتھ کی صفائی کے نمونے ہر طرف بکھرے پڑے ہیں)۔

’’و‘‘ سے وزارتیں۔ وارے نیارے

’’ر‘‘ سے رشوت، رہزنی، رت جگے (جو وزارتیں ملنے کے بعد جمہوریت کا تحفہ ہوتی ہیں)۔

’’ی‘‘ سے ’’یوٹوپیا‘‘۔ (یہ ایک خیالی جزیرہ تھا جس میں مثالی حکومت قائم تھی، بالکل پاکستان کی طرح بے مثال)۔

’’ت‘‘ سے تاوان (جمہوریت کا ایک اہم ستون اور ایک ایسا مثالی کاروبار جس میں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں، بالخصوص پاکستان میں)۔

چلیں چھوڑیں ان دل جلانے والی باتوں کو، چند حکایات آپ کی نذر ہیں۔ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا کبھی ایسے حاکم، وزیر اور سلطان بھی ہوا کرتے تھے، جن کا ذکر ان حکمت سے بھرپور حکایات میں ملتا ہے۔

حکایت نمبر1: ملک کِرمان کا بادشاہ نہایت نیک دل، سخی اور عادل تھا۔ ہر ممکن طریقے سے رعایا کو سہولتیں فراہم کرتا تھا۔ ایک دفعہ اسے کسی درباری نے اطلاع دی کہ ایک شخص کو اپنے گھر زمین سے دفینہ ملا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ نے اس شخص کو بلایا اور دفینے کے متعلق پوچھا۔ اس نے اقرار کیا کہ ہاں ایسا ہی ہے مجھے خزانہ ملا ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ اس نے دفینہ ملنے کی اطلاع اسے کیوں نہ دی؟ وہ بولا، اس لیے کہ وہ دفینہ مجھے اپنی ذاتی زمین سے ملا ہے، جو میری موروثی ملکیت چلی آرہی ہے۔ علاوہ بریں مجھے علم تھا کہ آپ ایک انصاف پسند بادشاہ ہیں اس لیے مجھ پر ظلم نہ کریں گے۔

بادشاہ نے اس شخص کو حکم دیا کہ دفینہ حاضر کیا جائے تاکہ دیکھیں تو سہی کہ کتنا دفینہ ہے اور کیا ہے۔ اگلے دن اس شخص نے دفینہ لا کر بادشاہ کے سامنے رکھ دیا۔ بادشاہ نے حساب کروا کے تھوڑا سا حصّہ خزانے میں داخل کرا دیا اور باقی اسے واپس کر دیا۔

وہ دعائیں دیتا چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد اسی پہلے درباری نے بادشاہ سے کہا کہ حضور اس شخص نے خزانے کا بڑا حصّہ تو اپنے گھر میں چھپا رکھا ہے۔ آپ کے سامنے تو یہ آدھے سے بھی کم خزانہ لایا ہے اور آپ نے پھر بھی اس کو خزانہ واپس کر دیا۔

بادشاہ نے جواب دیا۔ اس کا خزانہ ہے، میرے باپ کا نہیں، جو اس کی موروثی زمین سے نکلا ہے۔ اس نے اپنی خوشی سے ملکی خزانے کے لیے جو کچھ دیا وہی اس کی مہربانی ہے کہ میرا اس کے دفینے پر کوئی حق خدا نے واجب نہیں رکھا۔

ایک وہ تھے اور ایک آج کا زمانہ ہے کہ کسی کا بینک اپنے نام زبردستی کروا لو، کسی کی زمین پہ قبضہ کر لو، کسی کا ٹیلی ویژن اسٹیشن قبضے میں لے لو، کسی کی جائیداد کے جعلی کاغذات بنوا کر اپنے نام کر لو، ورنہ انکاری کی زندگی اجیرن کر دو۔

حکایت نمبر 2: ایک شخص علی الصبح نہانے کے لیے حمام کی طرف چلا۔ راستے میں ایک دوست مل گیا جو ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر وہ دوست بغیر کچھ کہے سنے دوسری طرف چلا گیا۔ اسی دوران ایک ٹھگ منہ اندھیرے شکار کی تلاش میں نکلا اور حمام جانے والے شخص کے ساتھ ہو لیا۔ حمام کے دروازے پہ پہنچ کے اس شخص نے اپنی ہمیانی کمر سے کھولی اور اندھیرے میں ٹھگ کو اپنا دوست سمجھ کر اس کے حوالے کی تا کہ نہا کر آئے تو واپس لے لے۔ جب وہ نہا کر نکلا تو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کا دوست کہیں نہ تھا۔ وہ پریشان ہو گیا کہ سفر پر جانا تھا اور دوست ہمیانی سمیت غائب تھا، جس میں سو اشرفیاں تھیں۔ وہ پریشان ہو کر گھر کی طرف چلا تو ٹھگ نے آواز دی۔

’’بھائی اپنی رقم کی تھیلی تو لیتے جائو، جو تم مجھے تھما گئے تھے۔‘‘

اس شخص نے مڑ کر دیکھا تو ایک اجنبی اس کی ہمیانی لیے کھڑا تھا۔ ’’تم کون ہو؟ اور یہ تھیلی تم تک کیسے پہنچی؟‘‘ اس نے پوچھا۔

ٹھگ نے جواب دیا، ’’بھائی، ٹھگ کہو، چور کہو، یا جیب کترا کہو، مگر اصل میں روٹی کا بھوکا ہوں۔‘‘

تھیلی کے مالک نے حیران ہو کر پوچھا، ’’تو پھر تم تھیلی لے کر چلے کیوں نہیں گئے، کیونکہ تھیلی تو میں نے خود تمہیں دی تھی۔ یہ اور بات کہ اندھیرے اور جلدی کی وجہ سے تمہارا چہرہ نہ دیکھ سکا، اپنا دوست سمجھ کر امانت حوالے کی اور حمام میں چلا گیا۔‘‘ ٹھگ نے جواب دیا، ’’بھائی اگر میں اپنے طریقے سے اڑا لیتا تو کبھی واپس نہ دیتا کیونکہ ہمارا تو پیشہ ہی دوسروں کا مال ہڑپ کرنا ہے،کبھی چوری کر کے، کبھی ٹھگ کر اور کبھی جیب کاٹ کر، مگر یہ تو آپ نے مجھے امانت کے طور پر سپرد کی تھی، ہم لوگ امانت میں خیانت نہیں کرتے۔‘‘

کیسا عجیب اتفاق ہے کہ آج ہر طرف ٹھگوں، جیب کتروں اور لٹیروں کا راج ہے۔ وہ اپنا کام بھی بخوبی کر رہے ہیں، لیکن اس پیشے میں بھی کچھ اخلاقیات تھیں جو فنا ہو گئیں۔ اسی لیے لوگ ان ٹھگوں کو زیادہ یاد کرتے ہیں جن کے پیشے میں بھی کچھ اصول تھے۔

حکایت نمبر 3: سلطان عبداﷲ بن طاہر کی اولاد میں سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ تمہارے خاندان سے حکومت جاتے رہنے کا سبب کیا تھا؟ کہ پہلے اتنا عروج اور آج کوئی تمہیں جانتا بھی نہیں۔ اس نے جواب دیا، تین باتوں کی وجہ سے حکومت گئی۔ بدقسمتی اور بدنصیبی آئی۔ اوّل وہ دن اور رات شراب و کباب میں ڈوبے رہتے تھے۔ رعایا کے حالات کی انھیں کوئی فکر نہ تھی۔

دوم چونکہ راتوں کو شراب پیتے تھے، اس لیے دن چڑھے تک سوتے رہتے تھے۔ اس طرح نہ عدالتوں کا کام ہوتا تھا۔ نہ کسی کو اجازت کہ انھیں بیدار کر کے ملکی حالات سے باخبر کریں۔ سوم، یہ کہ حکومت کا تمام کام نااہلوں کے سپرد کر دیا تھا اور خود عیاشیوں میں مگن تھے۔

وزیروں، امیروں، سرداروں اور تاجروں نے جب یہ حال دیکھا تو وہ اپنی من مانی کرنے لگے کہ کوئی پوچھنے والا تو ہے نہیں، جو چاہو کرو، جس کا جی چاہے حق مارو۔ جس کو جی چاہے سزا دو اور جس کو جی چاہے اعلیٰ منصب دے کر اہلِ علم کی بے توقیری کرو، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ قدرت ان کا امتحان لے رہی ہے۔ لیکن میرے اجداد نے اس قوت کو بھی بھلا دیا جس نے انھیں حکومت، منصب اور اقتدار دیا تھا۔ سو حکومت کیونکر باقی رہتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔