انقلاب روس اور عورتیں

مہ ناز رحمن  پير 16 اکتوبر 2017

روسی انقلاب کا آغاز عورتوں کے عالمی دن (جولین کیلنڈر 23 فروری اور مغرب میں آٹھ مارچ) کو ہوا۔ خواتین مزدوروں نے اسے عورتوں کی مساوات کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اپنے مطالبات کے لیے عورتوں نے ہڑتال کی، بڑی بڑی ریلیاں نکالیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ عورتوں نے مظاہروں میں شرکت کی۔ انھوں نے جنگ میں حصہ لینے والے سپاہیوں سے بھی رابطہ کیا اور انھیں اپنی تحریک میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔

سوشل ڈیموکریٹک حلقوں نے اس دن کو عمومی انداز سے ہی منانے کا ارادہ کیا تھا، جلسے، تقاریر، لیف لیٹ، کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ انقلاب کا پہلا دن بن جائے گا۔ کسی ایک تنظیم نے بھی اس دن ہڑتال کی کال نہیں دی تھی۔ ایک مزدور رہنما کے بقول عوام کا مزاج بڑا تناؤ بھرا تھا، کوئی بھی ہڑتال کھلی لڑائی میں تبدیل ہوسکتی تھی۔

سوشل ڈیموکریٹک کمیٹی کا خیال تھا کہ لڑاکا کارروائی قبل از وقت ہوگی، کیونکہ مزدوروں کی پارٹی ابھی اتنی مضبوط نہیں تھی اور مزدوروں کا رابطہ سپاہیوں کے ساتھ محدود تھا۔ تمام تر ہدایات کے باوجود ٹیکسٹائل کی محنت کش خواتین ہڑتال پر چلی گئیں اور دھات کاری کی صنعت کے محنت کشوں سے یکجہتی کی استدعا کرنے کے لیے اپنے نمایندے بھیجے۔ کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ بالشویک متفق ہوگئے اور منشویک اور سوشل انقلابیوں نے بھی ان کی پیروی کی (لیون ٹراٹسکی)۔ چند دنوں میں ہی یہ سرگرمیاں بغاوت کی شکل اختیار کرگئیں اور پانچ دن بعد زار کا تختہ الٹ دیا گیا۔

ورکرز کونسلیں یا سوویتیں قائم ہوئیں اور بالشویکوں نے مطالبہ کیا کہ سارے اختیارات سوویتوں کو دے دیے جائیں۔ دیہات میں کسان عورتوں نے بھی بغاوت کردی۔ عورتیں جنگ کا خاتمہ چاہتی تھیں، ان کا مطالبہ امن اور روٹی تھا۔ اکتوبر انقلاب تک بالشویک محنت کشوں کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔

مارچ 1917 میں بالشویکوں نے عورتوں کا اخبار نکالنا شروع کیا جس کے عملہ ادارت میں کرپسکایا، انیسا آرمنڈ اور دیگر اہم بالشویک خواتین شامل تھیں۔ اس کے ساتھ ہی مزدور خواتین میں انقلابی کام کو فروغ دینے کے لیے ایک ایجنسی بھی قائم کی گئی۔ اس دوران لینن نے بھی مزدور خواتین کو سوشلزم کی جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے کئی مضامین لکھے۔

اگست 1917 میں ہونے والی چھٹی پارٹی کانگریس میں شامل ہونے والے 171 مندوبین میں سے چھ فیصد خواتین تھیں۔ ان میں سے تین خواتین پارٹی کی مرکزی کمیٹی میں منتخب ہوئیں یعنی اس کمیٹی میں جسے آنے والے دنوں میں اکتوبر انقلاب میں بالشویکوں کی قیادت کرنی تھی۔ 1914 سے طبقاتی جدوجہد میں ابھار کے ساتھ عمومی رکنیت خاص طور پر خواتین کی رکنیت میں اضافہ ہوا، گو کہ ان کا تناسب کم ہی رہا۔

بہرحال حالات کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو اتنی تعداد میں منظم کرنا بھی بڑی کامیابی تھی۔ لیکن اس کے باوجود پیٹی بورثوا فیمنسٹس بالشویکوں پر تنقید کرتی تھیں کہ انھیں خواتین کے مسئلے کی پروا نہیں۔ روس میں پیٹی بورثوا فیمنسٹ تحریک مزدورتحریک سے الگ رہی، شروع میں ان کی توجہ صرف عورتوں کی تعلیم کے حق پر تھی۔ صنعتی عمل کے شروع ہونے اور شہروں میں مزدور یا پرولتاریہ طبقے کی تعداد میں اضافہ ہونے کے باعث فیمنسٹس کی توجہ کا مرکز فلاحی تنظیمیں بن گئیں تاکہ مزدوروں کی حالت کو بہتر بنایا جاسکے۔

پیٹی بورژوا فیمنسٹ صنعتی عمل کے اثرات کو ایک ایسی چیزکے طور پر دیکھتی تھیں جس کی ’’تلافی‘‘ خیرات اور اصلاحات کے ذریعے کی جاسکتی تھی۔ صنعتی عمل کی مشکلات اور مصائب کے باوجود بالشویک اسے ایک مثبت اقدام سمجھتے تھے جس کی بدولت خواتین طبقاتی جدوجہد میں شامل ہورہی تھیں۔

1900 میں جب رسمی بورثوا جمہوریت کے قیام کے امکانات روشن ہوئے تو پیٹی بورثوا فیمنسٹس نے سیاسی تنظیم کا عمل شروع کیا تاکہ ووٹ کا حق مل جانے کی صورت میں عورتوں کو بھلا نہ دیا جائے۔ بالشویک بھی ایسے جمہوری مطالبات کے لیے لڑ رہے تھے جن کا تعلق طبقاتی امتیازکے بغیر ساری خواتین سے تھا، جیسے حق رائے دہی، طلاق کا حق وغیرہ وغیرہ۔ ان کو یقین تھا کہ عورت کو آزادی صرف سوشلزم کے ذریعے مل سکتی ہے۔

لینن اور بالشویک عورتوں کی جدوجہداور تنظیم کو بہت اہمیت دیتے تھے لیکن وہ ایسا ہر طرح کے ظلم و جبر کے خلاف محنت کش طبقے کو منظم کرنے کے لیے کرتے تھے۔ اس لیے ان کا خیال تھا کہ عورتوں کو بالشویک پارٹی یا مزدوروں کی تنظیموں کے اندر ہی منظم ہونا چاہیے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی عورتوں نے بالشویک پارٹی کی تعمیر اور اس میں عورتوں کو منظم کرنے کے لیے بہت کام کیا۔

پہلی عالمی جنگ نے انقلابی لہر میں ایک عارضی تعطل پیدا کیا، اگرچہ عورتوں کی سیاسی تنظیم کو نئی توانائی ملی۔ لاکھوں مرد جنگ پہ چلے گئے اور عورتیں انڈسٹری میں داخل ہوگئیں۔ فوجی شکستوں، اقتصادی انہدام اور اناج کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں نے عورتوں سمیت سارے مزدوروں کو ہڑتالوں پر آمادہ کیا، جس کا نتیجہ 1917 میں فروری انقلاب کی صورت میں نکلا۔

اکتوبر میں محنت کشوں کو اقتدار مل گیا اور بالشویکوں نے عورت اور مرد کے درمیان مساوات کے لیے عملی اقدامات شروع کردیے۔ یہ اپنے عہد کے لحاظ سے انتہائی ترقی پسندانہ بات تھی کیونکہ اس وقت تک کسی سرمایہ دار ملک میں قانونی طور پر عورتوں اور مردوں کے درمیان مساوات نہیں تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے چار دن کے بعد سوویت حکومت نے ایک حکم کے ذریعے اوقات کار آٹھ گھنٹہ یومیہ کردیے۔

بالشویکوں کو ایک انتہائی پسماندہ ملک میں اقتدار ملا تھا، جہاں ناخواندگی عام تھی۔ اس لیے سب سے پہلی توجہ تعلیم عام کرنے پر دی گئی۔ عورتوں کی نقل و حرکت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی گئیں۔ عورتوں کو ان کے نئے مقام سے آگاہ کرنے کے لیے کئی کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ اور یوں سو سال قبل ایک نئے سفر کا آغاز ہوا، جس کی اس ماہ صد سالہ سالگرہ منائی جارہی ہے۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد لوگوں کے مسائل ختم نہیں ہوئے۔ جب تک غربت، بے روزگاری، مہنگائی، دولت اور وسائل کی عدم مساوات رہے گی، جب تک ایک فیصد لوگ دنیا کے ننانوے فیصد وسائل پر قابض رہیں گے، کسان، مزدور، اور عورتیں اپنے حق کے لیے لڑتے رہیں گے، اور اک نہ اک دن انقلاب ضرور آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔