حقوق العباد کی اہمیت

خالد دانش  جمعرات 28 فروری 2013
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ادائیگی حقوق العباد کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ فقہاء نے اس کے پیش نظر حقوق العباد کو حقوق اﷲ پر مقدم فرمایا ہے۔  فوٹو: فائل

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ادائیگی حقوق العباد کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ فقہاء نے اس کے پیش نظر حقوق العباد کو حقوق اﷲ پر مقدم فرمایا ہے۔ فوٹو: فائل

’’ پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو (ان کا حق)، یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضامندی کے طالب ہیں، اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔‘‘ (الروم: 38)

اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان سے حقوق العباد کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ادائیگی حقوق العباد کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ فقہاء نے اس کے پیش نظر حقوق العباد کو حقوق اﷲ پر مقدم فرمایا ہے۔

ایک حدیث مبارکہ میںنبی اکرمؐ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ قیامت کے دن منادی (حق تعالیٰ کی جانب سے) زیر عرش سے ندا کرے گا، کہ اے امت محمدؐ! میرا جو کچھ حق تمہاری طرف تھا اس کو تو معاف کرچکا سو تم آپس میں ایک دوسرے کو بخش دو اور میری رحمت سے جنت میں داخل ہوجائو۔‘‘ (الشرف بمعرفۃ احادیث التصوف ص155)

نبی اکرمؐ کے متبرک ارشاد کی روشنی میں ہمیں ادائیگی حقوق العباد پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہماری کوتاہی سے کسی کا کوئی حق ہماری طرف نہ رہ جائے۔ ارشاد خالق دو جہاں ہے کہ: ’’ بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔ (النحل: 90)

قرآن مجید کی آیت مبارکہ کو مفصل بیان کرنے کے لیے یہاں ضروری ہے کہ ہم احادیث مبارکہ سے راہ نمائی حاصل کریں۔ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’یعنی پورا مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سالم ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ ۔ بخاری)اس مختصر اور جامع حدیث مبارکہ میں دو فائدے نظر آتے ہیں۔ ۱۔ شرعیہ ۲۔ تمدنیہ

شرعیہ ، یہ ہے کہ ہم اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہو کر رب کائنات کی رضا حاصل کر سکتے ہیں اور تمدنیہ، یہ کہ بندوں کے درمیان درست اخلاقی رشتہ استوار کیا جائے۔ کیوں کہ جب ہم کسی کے شر سے محفوظ ہوں گے تو یقیناً بھائی چارہ گی، الفت اور ایک دوسرے کے لیے قربانی کی فضا قائم ہوگی۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی دل جوئی کریں، مشکل میں ایک دوسرے کے کام آئیں، احسان کریں مگر احساس نہ ہونے دیں، مدد کریں تو سامنے والے کو کمتری کا احساس نہ ہو، اپنی پسند کی طرح سب کی پسند کا خیال رکھیں، تب ہی ایک شفاف معاشرے کا قیام ممکن ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ تین خصوصیات جس مسلمان میں ہوں گی اﷲ جل جلالہ قیامت کے روز اس کا حساب آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گااور وہ خصوصیات یہ ہیں!
٭ جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو۔٭ جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کرو۔٭ جو تم سے قطع تعلق کرے تم اس سے ملاپ کرو۔ (کنزالعمال)
حضور اقدسؐ کا ارشاد پاک ہے کہ:’’ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم) َ۔کامل مومن کی پہچان یہی ہے کہ اس کا پڑوسی اس سے خوش رہے۔ اگر پڑوسی اس کے اچھا ہونے کی تصدیق کرتے ہیں تو بلاشبہ وہ نیک صالح انسان ہے۔

سرکار دو عالمؐ کا ارشاد ہے کہ:’’جو اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مسلمان کی عزت کرے اور اپنی زبان سے اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

ان تمام قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یعنی ہر وہ شخص جس نے کسی کا حق مارا ہے، اُسے جب تک اُس کا حق نہ لوٹا دیا جائے، اُس وقت تک بارگاہ الٰہی سے معافی کی قطعی امید بے سود ہے۔ لہٰذا ہمیں حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کا کوئی حق ہم پر باقی نہ رہے۔ یاد رکھیں! کہ حقوق اﷲ تو رحمت الٰہی سے معاف ہوسکتے ہیں مگر خلق کے ساتھ حق تلفی پر اﷲ جل جلالہ کا سخت عذاب ہے۔

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں ایک عورت کا ذکر آیا کہ وہ بہت نیک اور نمازی ہے، روزے رکھتی ہے اور کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتی ہے، لیکن زبان دراز ہے، اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’وہ دوزخی ہے۔‘‘

بارگاہ الٰہی میں دعا ہے کہ اے باری تعالیٰ! ہمیں تمام فرائض کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پورے کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔