پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا المیہ

سید وقار علی  جمعـء 20 اکتوبر 2017
بدلے کی آگ بجھانے کےلیے پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ کو میدان جنگ بنانے والے لسانی گروہ اب مشترکہ احتجاج کر رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بدلے کی آگ بجھانے کےلیے پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ کو میدان جنگ بنانے والے لسانی گروہ اب مشترکہ احتجاج کر رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

دنیا کے دوسرے خوبصورت ترین دارالحکومت اسلام آباد کی سر سبز و شاداب مارگلہ ہلز کے دامن میں واقع قائداعظم یونیورسٹی پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہے جس نے دنیا بھر کی بہترین 500 جامعات میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ کچھ روز قبل ایلومنائی ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل محمد مرتضیٰ نور کی جانب سے ایک دعوت ملی اور یونیورسٹی میں جاری ایک غزل نائٹ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس موقع پر وائس چانسلر، اساتذہ، طلبا، طلبا تنظیموں کے نمائندگان، متعدد سینیٹرز اور ممبر قومی اسمبلی جو قائداعظم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، ایک ہی پلیٹ فارم پر موجود تھے۔

میں نے اس محفل میں وائس چانسلرز، بیوروکریٹس، معروف ملکی سیاست دانوں کی ایک کہکشاں سجی دیکھی۔ مزید معلومات حاصل کرنے پر معلوم ہوا کہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک اشرف وتھرا، سابق گورنر اسٹیٹ بینک مسز شمشاد، چانسلر پریسٹن یونیورسٹی ڈاکٹر عبدالباسط، وائس چانسلر ایجو کیشن یونیورسٹی ڈاکٹر رؤف اعظم، پنجاب کی سب سے بڑی جامعہ، پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین ناصر، ڈاکٹر ثقلین نقوی باچا خان یونیورسٹی، ڈاکٹر طاہر امین بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی، ڈاکٹر قیصر مشتاق وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، معروف اینکر پرسن کاشف عباسی، نسیم زہرا، طلعت حسین، ارشد شریف، دو درجن سے زائد وفاقی و صوبائی سیکریٹریز، بیرون ممالک میں وطن عزیز کا نام روشن کرتے ہوئے کئی سفراء بھی قائداعظم یونیورسٹی سے فار غ التحصیل ہیں۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت قائداعظم یونیورسٹی شدید انتشار کا شکار ہے۔ گرلز ہاسٹل میں طلبا کی جانب سے ہلڑ بازی کی کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ منشیات کا استعمال چھوڑیئے، یہاں تو منشیات فروشی بھی عام ہوچکی ہے اور کئی طلبا کو اس میں ملوث پا کر پولیس گرفتار بھی کرچکی ہے۔ یونیورسٹی کی لسانی طلبا تنظیمیں اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں۔ تنظیموں نے گزشتہ کئی دنوں سے یونیورسٹی کا تدریسی و انتظامی عمل بند کر رکھا ہے۔ مظاہرین رات بھر سڑکوں پر ٹینٹ لگا کر سوتے ہیں، کلاسز کا مکمل بائیکاٹ ہے۔

داخلے کے خواہش مند طالب علموں کےلیے 10 اکتوبر کو میرٹ لسٹ لگنی تھی، وہ بھی نہیں لگ سکی۔ پرو چانسلر قائداعظم یونیوسٹی و وزیر تعلیم انجینئر بلیغ الرحمان نے مظاہرین سے ملاقات کی اور انہیں مکمل یقین دہانی بھی کروائی کہ انہیں انصاف دیا جائے گا، مگر مظاہرین کا کہنا ہے کہ زبانی کلامی دعووں کا زمانہ گزر گیا۔ جب تک عملی طور پر کام نہیں ہوجاتا تب تک احتجاج ختم نہیں ہوگا۔

ایک خبر کے مطابق اگلے ماہ قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کا اجلاس ہے جس میں مظاہرین کے مطالبات زیر بحث لائے جائیں گے یعنی تب تک حالات جوں کے توں رہنے کا خدشہ ہے۔

احتجاجیوں اور ہڑتالیوں کے واضح مطالبات یہ ہیں کہ سمر کورسز آفر کیے جائیں۔ قائداعظم یونیورسٹی ایک سرکاری ادارہ ہے جہاں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں لہذا آسمان سے باتیں کرتی فیسوں کو زمین پر واپس لایا جائے۔ یونیوسٹی میں میڈیکل سینٹر بنایا جائے اور گرلز ہاسٹل میں چوبیس گھنٹے ڈاکٹرز کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ میرٹ پر سیٹیں خالی ہونے کی صورت میں سیلف فنانس پر پڑھنے والے طلبا کو میرٹ پر اپ گریڈ کیا جائے۔

مجھ سمیت تمام قارئین احتجاجیوں کے ان مطالبات کو تہہ دل سے تسلیم کرتے ہیں او یقین دلواتے ہیں کہ اس احتجاج میں احتجاجیوں کے شانہ بشانہ شامل ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کےلیے ان مطالبات کو تسلیم کرنا کوئی بڑی بات نہیں؛ بالخصوص ایسے وقت میں جب وزیر تعلیم اور دیگر متعلقہ ادارے بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواچکے ہیں۔

یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ مطالبات تسلیم کرلینا انتظامیہ کا فرض ہے تو پھر تمام اسٹیک ہولڈرز انتظامیہ کے حامی اور احتجاجیوں کے مخالف کیوں دکھائی دے ہے ہیں؟ ایسی کونسی بات ہے جس پر یونیورسٹی انتظامیہ بھی بضد ہے اور دونوں فریقین کے درمیان مفاہمت کی کوئی راہ نظر نہیں آتی؟ اسے سمجھنے کےلیے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا۔

دراصل ان چھوٹے چھوٹے مطالبات کے پیچھے ہڑتالیوں اور احتجاجیوں کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ان تمام طلبا کو بحال کیا جائے جنہیں سندھ اور بلوچ کونسل کے آپس کے جھگڑے کی پاداش میں فارغ کیا گیا تھا؛ اور یہی مطالبہ یونیورسٹی کےلیے ماننا انتہائی مشکل ہے کیونکہ اس جھگڑے سے نہ صرف یونیورسٹی کا ماحول خراب ہوا بلکہ دنیا بھر میں جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح آپس میں گتھم گتھا نوجوان ایک دوسرے کو ہاسٹل کی چھتوں سے نیچے پھینکتے رہے۔ تصادم رکوانے کےلیے کوشاں پولیس اہلکاروں پر ہاسٹلز کی چھتوں سے پتھراؤ کیا گیا، جھگڑالو اور متشدد طلبا کی جانب سے میڈیا نمائندگان پر بدترین تشدد کیا گیا، کیمرے توڑ دیئے گئے اور میموری کارڈز بھی چھین لیے گئے۔ اس کے بعد پولیس کی جانب سے شدید شیلنگ کی گئی، ہاسٹلز خالی کروانے کےلیے گرینڈ آپریشن کیا گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے افغانستان میں امریکی فوج کا آپریشن جاری ہو اور یہ تماشا سوشل میڈیا پر بھی ان ہی طلبا کی جانب سے وائرل ہوا اور پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا المیہ پوری دنیا نے دیکھا۔

بدلے کی آگ بجھانے کےلیے پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کو میدان جنگ بنانے والے لسانی گروہ اب مشترکہ احتجاج کر رہے ہیں، یونیورسٹی کی جگ ہنسائی کا باعث بننے والوں کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اس بار قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف بھی حق پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کہا ہے کہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے، ضرورت پڑی تو ایک بار پھر سے گرینڈ آپریشن کروائیں گے۔ ڈاکٹر جاوید اشرف یقیناً ایک دانا اور محنتی شخص ہیں جن کی کاوشوں کے نتیجے میں آج قائداعظم یونیورسٹی دنیا کی 500 بہترین جامعات میں شامل ہوئی۔ جامعات کی عالمی رینکنگ جاری کرنے والا دنیا کا معروف ترین ادارہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن بتاتا ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہے جو 2017 میں دنیا کی 500 بہترین جامعات میں شامل ہوئی ہے۔ ہم بھی یہ بات جانتے ہیں کہ اس سے پہلے تک جاری ہونے والی رینکنگز کے بعد اخبارات میں ہمیں یہی خبر ملتی تھی کہ بھارت اور چین دنیا کی 500 بہترین جامعات میں شامل ہیں لیکن پاکستان اس دوڑ سے باہر ہے۔

آخر میں اس حوالے سے سوال اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں کہ قائداعظم یونیورسٹی جیسا بڑا ادارہ جہاں سے کوہ نور نکلا کرتے تھے، آخر اس قدر انتشار کا شکار کیوں؟ ہیرے موتیوں کی یہ کان کوئلے کی کان کیسے بن گئی؟ یونیورسٹی میں پھیلتی بدامنی کی وجہ کیا ہے؟ منفی سرگرمیوں کا بڑھتا ہوا رحجان کیوں؟

دراصل قائداعظم یونیوسٹی میں کوٹا سسٹم ہے، یہاں مختلف صوبوں سے تعلق کھنے والے طلبا کو کوٹے کے حساب سے سیٹیں دی جاتی ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند ماجے گامے بھی یونیورسٹی تک پہنچ جاتے ہیں اور یہاں آتے ہی وہ فروغِ ثقافت و تہذیب کے نام پر لسانی گروپوں کا حصہ بن جاتے ہیں؛ اور پھر ذاتیات کی جنگ میں یونیورسٹی کے تقدس کو بلی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔

پاکستان میں ضیاء الحق کی جانب سے 9 فروری 1986 کو طلبا یونینوں پر پابندی لگائی گئی جس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں 1989 میں پنجاب بھر میں طلبا یونینوں کے آخری الیکشن ہوئے جو تین ماہ بعد ہی کالعدم قرار دے دیئے گئے۔ 1989کے بعد سے آج تک تعلیمی اداروں میں طلبا یونین الیکشن نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ان لسانی اور مقامی گروپس کو تقویت ملی، تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سر گرمیوں کا فقدان ہوا اور شدت پسندی نے جڑیں مضبوط کیں۔

موجودہ چیئرمین سینیٹ نے ایک خصوصی کمیٹی اس حوالے سے تشکیل دے رکھی ہے، قومی اسمبلی میں بھی طلبا تنظیموں کے الیکشن کی باز گشت ہے۔ امید ہے کہ جلد پاکستان کے تعلیمی اداروں میں گروپ بندیاں ختم ہو جائیں گی، حقیقی طلبا تنظیموں کو ان کا جمہوری حق ملے گا اور تعلیمی اداروں میں ایک بار پھر سے غیر نصابی سرگرمیاں فروغ پائیں گی۔ شدت پسندی کا خاتمہ ہوگا، امن و امان ہوگا، جمہوری و مستحکم پاکستان ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید وقار علی

سید وقار علی

مصنف سوشل سروسز پارٹنرشپ کے نیشنل کو آرڈینیٹر اور یوتھ کونسل پاکستان کے صدر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔