کتاب کلچر اور الیکٹرانک میڈیا

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 5 جولائی 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستانی معاشرہ آج جس ہمہ جہت انارکی، جرائم، دہشت گردی اور ہمہ گیر کرپشن کا شکار ہے اس پر قابو پانے کے لیے عموماً انتظامی اقدامات، انتظامی شعبے میں اصلاحات، پولیس کی نفری میں اضافہ، پولیس اور رینجرز کے لیے بکتر بند گاڑیوں اور جدید اسلحہ کی فراہمی، ٹریننگ پروگراموں وغیرہ پر زور دیا جاتا ہے اور ان پروگراموں پر اربوں روپے صرف کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی جرائم زدہ معاشرے کی بہتری کے لیے انتظامی اقدامات بھی ضروری ہوتے ہیں لیکن اس قسم کے اقدامات سے جرائم پر قابو پانے میں تھوڑی بہت مدد مل سکتی ہے۔ یا پھر اس قسم کے اقدامات غیر موثر ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہر قسم کے انتظامی اقدامات کے کام ہورہے ہیں۔ رینجرز، پولیس، ایف سی اور فوج تک پاکستان میں امن قائم کرنے، جرائم کو ختم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں، ہمارے معاشرے کو مجموعی طور پر جس خطرناک مسئلے کا سامنا ہے، وہ ہے دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، ان بلائوں کو ختم کرنے میں انتظامیہ نہ صرف ناکام ہوگئی ہے بلکہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے والے اداروں کو خود اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

اگر کسی معاشرے کی اصلاح میں بیوروکریسی کے مشوروں ہی پر انحصار کیا جاتا ہے، تو ایسے معاشرے میں بہتری آنے کے بجائے بدتری میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس معاشرے کو سنوارنے کی ذمے داری حکمران طبقات ادا کرتے ہیں تو اس معاشرے میں اصلاح ہونا تو درکنار برائیوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں طبقات بیوروکریسی اور حکمران کا کوئی وژن نہیں ہوتا۔ بیوروکریسی کا واحد مقصد حکمرانوں کو خوش رکھنا ہوتا ہے اور حکمرانوں کا اہم مقصد اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عیش وعشرت کے سامان فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اصلاح معاشرہ کا کام محض پروپیگنڈے کی حد تک ہوتا ہے۔ اس پر بھی کروڑوں روپے صرف کردیے جاتے ہیں۔ جب ان سے جرائم انارکی وغیرہ پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو یہ لوگ رٹا رٹایا یہی جملہ دہراتے ہیں کہ ’’یہ مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ جنھیں حل کرنے میں بہت وقت لگے گا‘‘۔

کسی ملک یا معاشرے میں صاحب علم، صاحب بصیرت لوگوں کی اہمیت ہوتی ہے اور معاشرتی بہتری میں ان کے مشوروں کو اہمیت دی جاتی ہے تو پھر ان معاشروں میں بہتری کا عمل تیز بھی ہوتاہے اور دیرپا بھی۔ ہمارے اہل فکر ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ معاشرے کی اصلاح بلکہ پائیدار اصلاح میں ادب، شاعری اور فن بہترین اور موثر کردار ادا کرسکتے ہیں، جس کے لیے کتاب کلچر کے احیاء کی شدید ضرورت ہے۔ ہمارے بعض سیاست دان بھی بار بار کتاب کلچر کے فروغ کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی اہمیت سیاسی بیانات سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہماری معاشرتی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ادب کے فروغ کے لیے جو ادارے موجود ہیں اور جنھیں کروڑوں روپوں کی گرانٹ مل رہی ہے وہ بھی محض رسمی اور پروپیگنڈا رسموں کے علاوہ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اداروں کی سربراہی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جن کا وژن حکمران طبقات کے وژن سے ہم آہنگ ہوتاہے اور حکومت کے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی مہربانی سے ادیب اور شاعر سننے والے محترمین کی سرگرمیاں بیرونی ملکوں کے دوروں، کانفرنسوں سے خطاب اور اپنی خدمات جلیلہ کے صلے میں ایوارڈ حاصل کرنے تک محدود ہوتی ہیں۔

ہماری مادر علمی کراچی یونیورسٹی میں ایک شعبہ ہے جس کا نام ’’پاکستان اسٹڈی سینٹر‘‘ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر سید جعفر احمد ہیں۔ اس شعبے نے اب تک چالیس کے لگ بھگ کتابیں چھاپی ہیں۔ جن میں ادب، شاعری، سماجیات اور تاریخی کتابیں شامل ہیں۔ ڈاکٹر جعفر ازراہ مہربانی ہمیں اپنی تصنیفات بھجواتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر صاحب نے تقریباً 400 صفحات پر مشتمل کتاب ہمیں بھجوائی ہے جس کا عنوان ’’پروفیسر سید محمد نصیر کے مضامین‘‘ ہے۔ پروفیسر مرحوم کا شمار ترقی پسند دانشوروں میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق ویسے تو شعبہ تعلیم سے تھا لیکن مرحوم ہر اس اجتماع میں شامل رہتے تھے خواہ وہ ادبی ہو یا سیاسی جس کا مقصد ہمارے معاشرے میں ترقی پسند فکر کا فروغ ہو۔ ڈاکٹر جعفر نے بڑی محنت سے مختلف موضوعات پر لکھے پروفیسر نصیر مرحوم کے مضامین کو کتابی شکل دی ہے۔

پاکستان اسٹڈی سینٹر کی شایع کردہ 40 کے لگ بھگ خوب صورت کتابوں میں پاکستانی معاشرہ اور ادب، پاکستان میں اردو افسانے کے پچاس سال، حسرت کی سیاست، فیض ایک جائزہ، برصغیر میں تاریخ نویسی کے رجحانات، فیض شخصیت اور فن، صحافت پابند سلاسل، پاکستانیات جلد اول، جلد دوم، پروفیسر آفاق صدیقی اور سندھی ادب، ڈاکٹر فیروز احمد کے مضامین جیسی نادر کتابیں شامل ہیں۔ ہمارے منتخب افسانوں کے مجموعے ریگ زار کی اشاعت میں بھی برادرم ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اہم کردار ادا کیا۔ ’’محنت کشوں کے نام شاعری‘‘ میں ڈاکٹر صاحب نے تقریباً  114 شہدا کا وہ کلام اکٹھا کردیا ہے جس کا تعلق مزدوروں اور کسانوں کی حالت زار سے ہے۔ یہ ایک انتہائی محنت طلب کام ہے جسے ڈاکٹر جعفر احمد نے انجام دیا ہے۔ اسٹڈی سینٹر کی شایع کردہ کتابیں ایسی ہیں جو معاشرتی اصلاح میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ کتابیں عوام تک رسائی سے محروم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی حکومت، کوئی ادبی ادارہ، کتابوں کی اشاعت اور ان کی مارکیٹنگ کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔

پچھلے دنوں ہمیں ملنے والی کتابوں میں ڈاکٹر شیر شاہ سید کی ’’وہ صورت گر کچھ خوابوں کا‘‘ مسلم شمیم کی ضخیم کتاب ’’نظریات کا تصادم‘‘ اٹک سے مرزا طاہر بیگ کی ارسال کردہ کتاب ’’انقلاب چین‘‘ اور ڈاکٹر جعفر کی مرتب کردہ کتاب ’’پاکستان میں مزدور تحریکیں‘‘ شامل ہیں۔ ان کتابوں پر تبصرہ تو اس کالم میں ممکن نہیں لیکن یہ ساری کتابیں جہاں قاری میں وسعت نظر پیدا کرتی ہیں وہیں ہمارے سر سے پیر تک بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح اور ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ لیکن ان تمام کتابوں اور رسائل کی مارکیٹنگ کا کوئی انتظام نہیں جس کی وجہ سے یہ قیمتی ادبی سرمایہ ضایع ہورہا ہے۔ ادبی کتابوں کی اشاعت مصنف کے لیے بذات خود ایک بڑا جان لیوا مرحلہ ہے اور کوئی ادیب یا شاعر جب اس دشوار گزار مرحلے سے گزر کر کتاب چھپوا لیتا ہے تو اس کی تعداد عموماً 500 سے زیادہ نہیں ہوتی، جو اٹھارہ کروڑ عوام کے اس ملک میں اونٹ کے منہ میں زیرہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں، اس پر قیامت یہ کہ عموماً ادبی کتابیں آدھی دوستوں میں بانٹی جاتی ہیں اور آدھی مصنف کے گھر کے کسی کونے میں رکھی دیمک کی نذر ہوجاتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ تقریباً ایک عشرے سے دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، جرائم کی بھرمار سے نمٹنے کی جو تدبیریں کررہا ہے اور جس کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، اس کا نتیجہ اس قدر مایوس کن کیوں سامنے آرہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سر سے پیر تک بگڑے ہوئے معاشرے کو محض انتظامی اور انسدادی اقدامات سے بہتر نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اسے بہتر بنانے کے لیے ایک فکری انقلاب کی ضرورت ہے اور یہ فکری انقلاب کتاب کلچر کے فروغ کے ذریعے ہی آسکتا ہے۔ اگرچہ یہ ذمے داری ادبی اداروں اور حکومت کی ہے لیکن ہمارا الیکٹرانک میڈیا جو برصغیر کی فلم انڈسٹری اور شعبہ فن کے زندہ اور مرحوم کرداروں کی سرگرمیوں پر گھنٹوں صرف کرتا ہے، اگر وہ منتخب ادبی کتابوں اور ادیبوں کے تعارف کا ایک مستقل اور مربوط سلسلہ شروع کرے تو جلد شعبہ کتاب کلچر کے فروغ اور معاشرتی اصلاح میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس میڈیا کی ملک کے چپے چپے تک رسائی ہے اور عوام میں کتاب کلچر کا فروغ الیکٹرانک میڈیا کی ایک مثبت خدمت بھی ہوگی جو فکری انقلاب میں اہم کردار بھی ادا کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔