(پاکستان ایک نظر میں) - ہم حال سے باغی ماضی کے پجاری اور مستقبل کے بھکاری ہیں۔۔۔

محسن ضیا  جمعرات 12 جون 2014
پولیس اہلکاروں اور مقامی افراد کے درمیان جھڑپ کا ایک منظر۔ فوٹو: فائل

پولیس اہلکاروں اور مقامی افراد کے درمیان جھڑپ کا ایک منظر۔ فوٹو: فائل

گلہ مجھے کرپٹ سیاستدانوں،بے ضمیر حکمرانوں یا عوام کو کسی نئے لالی پاپ کی ڈگڈگی پر نچانے والے رہنماوں سے نہیں،گلہ مجھے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کئے گئے ٹیکس کو اپنی ذات پر صرف کرنے والوں سے بھی نہیں اور گلہ تو مجھے لاشوں پر سیاست کرنے والے، وطن کو تعصب،قوم پرستی اور مذہبی شدت پسندی کی آگ میں جھونک دینے والے رہنماوں سے بھی نہیں۔ شکایت تو ہر بار ایک ہی سوراخ سے خود کو ڈسوانے والی اور اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مارکر واویلا مچانے والی “باشعور” پاکستانی عوام سے ہے۔

گلہ ہے توخود ہاتھی نگل کر دوسروں کو مکھی نگلتے ہوئے دیکھ کر ہائے کرپشن ہائے کرپشن کا نعرہ لگا کر انقلاب لانے کی کوششوں میں مگن سادہ لوح پاکستانیوں سے ہے۔ کہتے ہیں کہ انتظار کرنے والوں کو اتنا ہی ملتا ہے جتنا کوشش کرنے والوں سے بچ جاتا ہے لیکن ہم انتظار کو صبر کا نام دیتے ہیں اور آخر میں قسمت کو کوستے ہوئے کہتے ہیں “پاکستان ہے بھائی،یہاں ایسا ہی ہوتا ہے”۔

شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا۔۔
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔۔

ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ بُک کروانے کے لئے لمبی قطار توڑتے ہوئے ایک صاحب سب سے آگے جاکر کھڑے ہوگئے،کچھ لوگ سینہ تان کر آگے بڑھے اور کہا کہ جناب ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں جو دوگھنٹے سے کھڑے ہیں لائنوں میں۔ ان صاحب نے مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے کہا کہ جانتے ہو میں کون ہوں۔ یہ بارعب انداز دیکھ کر کچھ لوگوں نے پہلے ہی ڈھیر ہوکر خاموشی کو ترجیح دی لیکن ایک نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ بھائی صاحب آپ کون ہیں جس پر انہوں نے اسے گریبان سے پکڑ کر کہا ہے میں انسپکٹر ہوں۔ بہت مشکل سے لوگوں نے پیچ میں آکر معافی تلافی کروائی اور ان صاحب کے ٹکٹ لے کر جانے کے بعد اس ستم ظریف نوجوان کو کوسنے لگے کہ آخر کیا ضرورت تھی الجھنے کی، وہ انسپکٹر تھا تمہیں اٹھا کر لے جاتا تو کیا ہوتا۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ آخر کوئی تو ایسا ہوتا جو نوجوان کو سمجھانے کے بجائے انسپیکٹر کو سائیڈ پر لے جا کر کہتا ہے کہ بس جناب بہت ہوگئی،آپ انسپکٹر ہوں گے تو تھانے میں ہوں گے،یہاں عام شہری کی حثیت سے آئے ہیں تو وہ رہی لائن پیچھے جا کر کھڑے ہوجائیں اور ٹکٹ کٹائیں۔

عبادتوں میں دکھاوا،قول و فعل میں تضاد،حقوق اللعباد سے نا آشنا، یا شیخ اپنی اپنی دیکھ کے مقولے پر پوری طرح عمل پیرا،دودھ میں پانی نہیں بلکہ پانی میں دودھ، بات بات پر جھوٹ، ٹریفک سگنل توڑ کر دومنٹ بچانے کی خوشی میں بغلیں بجانے سےلے کر رشوت دے کراپنا الو سیدھا کرنے میں آخر برائی ہی کیا ہے ؟یہی تو ہے ہماری سوچ جس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔

اول توووٹ دینے کے لئے گھر سے نہ نکلنا،نکلنا تو جاکر نئی پیکنگ میں پرانے چہروں کو یہ سوچ کر منتخب کر لینا کہ چلو آزمایا ہوا تو ہے،مارے گا بھی تو پہلے پانی کا پوچھے گا پھر چھاوں میں لےجا کر مارے گا اور پھر اگلے پانچ سال ماضی کی یاد میں آہیں بھرتے ہوئے کہنا کہ اس سے تو پچھلے ہی بھلے تھے۔ اور ہاں مستقبل کے لئے آنکھوں میں حسین سپنے سجائے حال سے قطع نظر ” یہ حکمران تو ہیں ہی کرپٹ کی دہائیاں دینا۔ اِس سارے منظر کو دیکھنے کے بات تو میں یہی سوچتا ہوں کہ واقعی ہم حال سے باغی ماضی کے پجاری اور مستقبل کے بھکاری ہیں۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔