دہشت گردی اور ملکی معیشت کے نقصانات…

عبد الوارث  جمعرات 28 اگست 2014

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملکی معیشت کو جس قدر نقصان اٹھانا پڑا، وہ یقینا ایک بہت بڑا دھچکا ہے جس پر قابو پانے کے لیے یقینا کئی سال لگ سکتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے تین سالوں میں اس دہشت گردی کی وجہ سے ملکی معیشت کو 28 ارب 46 کروڑ ڈالرز نقصان ہوا جب کہ اگر 2002ء سے حساب لگایا جائے تو یہ نقصان لگ بھگ 102 ارب ڈالرز کے قریب ہے۔

ہماری برآمدات کو پچھلے دو سالوں میں 2 ارب 29 کروڑ ڈالر جب کہ انفرا اسٹرکچر کو تقریباً 2 ارب 47 کروڑ ڈالر کا جھٹکا برداشت کرنا پڑا۔ جب کہ صنعتی پیداوار (Indurstrial Production) کو لے لیا جائے تو اس میں تقریباً 71 کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا۔ ان تمام نقصانات کی وجہ سے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی اور یہ ملک بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کے لیے خطرے کی علامت سمجھا جانے لگا۔ ملک کو درپیش توانائی کے مسائل اور سیاسی افراتفری سے جو نقصان ہوا وہ اس کے علاوہ ہے۔

امریکی امداد جو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کے حصے میں آئی وہ اس تمام نقصان کا بمشکل 10 فیصد ہے۔ جس سے ہمارے ان تمام نقصانات کا ازالہ یقینا نہ ہو سکا۔ ملک میں جاری دھرنے اور لانگ مارچ کی سیاست کی روایت اب آہستہ آہستہ مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ جو معیشت کے لیے یقینا ایک اچھی خبر نہیں ہے۔ 2013ء میں ڈاکٹر طاہر القادری کے دیے گئے اسلام آباد کے دھرنے کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے یقینا احسن طریقے سے ڈیل کیا۔ لیکن اس دھرنے سے ملک کی معیشت کو کافی نقصان پہنچا جس میں سب سے زیادہ نقصان اسلام آباد کے تاجروں اور حکومت کی ٹیکس آمدنی کا تھا۔

اس دھرنے کی وجہ سے اس مخصوص علاقے میں تاجروں کا کاروبار اور زندگی مفلوج ہونے سے ان چند دنوں میں تقریباً 2 سے 3 ارب روپوں کا نقصان ہوا۔ جب کہ زندگی مفلوج ہونے اور افراتفری کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ کے نیچے آنے اور سرمایہ کاری کے انخلا سے تقریباً 3 سے 4 ارب روپے کا نقصان ہوا جس میں حکومت کو حصص (Shares) کی خرید و فروخت کم ہونے سے ٹیکسوں کی مد میں ہونے والے نقصانات بھی شامل ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر طویل عرصے سے بد امنی کا شکار رہا ہے۔ اس شہر میں ہڑتالوں اور زندگی مفلوج ہونے سے ملک کی معیشت اربوں روپے کا نقصان برداشت کر چکی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس شہر کے بند ہونے سے ایک دن میں 8 سے 10 ارب روپوں کا نقصان ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس شہر کے حالات اب بہت بہتر ہیں۔ لیکن پچھلے 2 سے 3 سالوں میں یہاں ہونے والی ہڑتالوں اور احتجاج کی وجہ سے سرمایہ کاری کا یہاں سے تیزی سے انخلا دیکھا گیا جس کا اندازہ شاید اربوں میں نہیں کھربوں میں لگایا جا سکتا ہے۔ ملک میں جاری حالیہ دھرنوں اور لانگ مارچ کی وجہ سے ملک کی اقتصادی صورتحال کو جو جھٹکا لگا اس کی بازگشت آنے والے دنوں میں یقینا سنائی دے گی۔

اس وقت ہمارا میڈیا صرف ان لانگ مارچ اور دھرنوں کی کوریج میں لگا رہا لیکن کسی نے بھی ملک کو ہونے والے اقتصادی نقصان کا اندازہ لگانے کی کوشش نہ کی جب کہ ان تبصروں اور بے لاگ کوریج نے ملک کے اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچایا اور پاکستان کو بیرون دنیا میں ایک خطرناک، غیر مستحکم اور غیر محفوظ ملک کے طور پر گردانا جانے لگا۔ کئی مغربی ممالک جن میں امریکا، برطانیہ اور فرانس وغیرہ شامل ہیں نے اپنے شہریوں کو پاکستان جانے سے منع کرنے کی ہدایت جاری کی۔ مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کا دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ آئی ایم ایف نے اسلام آباد نہ آنے کو ترجیح دی۔

کئی غیر ملکی سرمایہ کاروں اور برآمد و درآمد کنندگان (Exporter and Importer) کی میٹنگز منسوخ کر دی گئیں۔ کئی ایکسپورٹ آرڈرز غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے منسوخ کر دیے گئے۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج جو دنیا کی 5 سب سے زیادہ منافع بخش تجارتی منڈیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ (جو یقینا ہمارے ملک کے لیے باعث افتخار ہے) شدید مندی کا شکار رہی۔ اور ایک دن تو ایسا بھی آیا جو مارکیٹ تقریباً 1300 پوائنٹس نیچے آگئی اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک پوائنٹ کے نیچے ہونے سے تقریباً 5 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ تو اندازہ لگا لیجیے کہ یہ نقصان کس حد تک پہنچ گیا۔ جب کہ مجموعی طور پر مارکیٹ تقریباً 1800 پوائنٹس تک پہنچ گئی۔

مارکیٹ میں شیئرز کی خرید و فروخت کا حجم کم ہونے سے قومی خزانے کو روزانہ کروڑوں روپے کی کیپیٹل گین ٹیکس اور دوسرے واجبات سے محروم ہونا پڑا۔ یہ نقصان تقریباً 200 سے 300 ارب روپوں تک جا پہنچا۔ کئی چھوٹے سرمایہ کاروں کے اکاؤنٹ ختم ہو گئے۔ جب کہ بڑے سرمایہ کاروں کو چند ہفتوں میں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہزاروں بروکرز جن کا کام ہی روزمرہ کمیشن پر چلتا ہے اس پورے مہینے میں کاروباری حجم کم ہونے سے تقریباً پوری ماہانہ ماہانہ آمدنی سے محروم ہو گئے۔

غیر ملکی سرمایہ کار جو پچھلے مہینے کے اختتام تک کوئی خوش کن خبروں کے آنے کے بعد کراچی اسٹاک ایکسچینج میں متحرک نظر آئے انھوں نے اپنے سرمائے کا انخلا شروع کر دیا۔ جو یقینا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ اب شاید دوبارہ ان سرمایہ کاروں کو اس طرح راغب کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے انخلا کے بعد ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ پڑا۔ افراتفری میں اضافے کے بعد کرنسی کی قیمت کم ہوگئی۔

ڈالر پچھلے کئی دنوں میں اوپر چلا گیا۔ اور ایک وقت 98 روپے کے برابر ہونے کے بعد اب یہ اوپن مارکیٹ میں تقریباً 101 روپوں کے قریب پہنچ گیا۔ جس سے درآمد کنندگان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا جب کہ ملکی قرضوں میں اربوں روپے کا خود بخود اضافہ ہو گیا۔ سرمایہ کار تو بہت حساس (Sensitive) ہوتا ہے۔ ذرا سی افراتفری اس کو اپنا سرمایہ نکالنے پر مسائل کر دیتی ہے۔ ان دھرنوں اور لانگ مارچ کی سیکیورٹی پر روزانہ ایک کروڑ روپے سیکیورٹی پر خرچ ہو رہے ہیں تو اندازہ لگا لیجیے کہ قومی خزانے کو تقریباً دو ہفتے سے جاری رہنے والی اس سیاسی سرگرمی سے کتنا نقصان ہو چکا ہے۔ جب کہ دونوں جماعتوں کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ بھی ایک عرب سے اوپر کا مجموعی خرچہ بنتا ہے۔

سول نافرمانی کی کال سے بظاہر کوئی نتیجہ نہیں نکلا ورنہ اس سے بھی قومی خزانے کو روزانہ اربوں روپے کا جھٹکا لگ سکتا تھا۔ اس تمام نقصان اور اخراجات کا اگر صرف 10 فیصد آئی ڈی پیز کی امداد کے لیے لگا دیا جاتا تو ان کے تمام مسائل حل کر دیے جاتے۔ ان اخراجات کا تقریباً 20 فیصد ترقیاتی کاموں اور سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہو جاتا تو ہزاروں لوگ روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ اگر بدترین ٹریفک جام کی وجہ سے گاڑیوں میں ضایع ہونے والا پٹرول ہی بچا لیا جاتا تو شاید اس سے ایک یا دو ترقیاتی منصوبوں کے لیے رقم فراہم ہو سکتی تھی۔

کاش ہمارے سیاستدان ان تمام مسائل کا ادراک کر سکیں۔ اس سیاسی افراتفری نے شاید حکومت کو تو اتنا کمزور نہیں کیا لیکن پاکستان کے اقتصادی مفادات کو ایک گہری ضرب ضرور لگی ہے۔ کیا یہ بات اب ضروری نہیں کہ ساری سیاسی جماعتوں کو ایک ضابطہ اخلاق پر متفق کیا جائے کہ احتجاج ضرور کریں۔ لیکن ہڑتالوں، لانگ مارچوں اور دھرنے دینے سے اجتناب کیا جائے تا کہ ملک جو پہلے ہی معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے اس کو مزید کمزور ہونے سے بچایا جائے۔ جمہوری اور آئینی احتجاج ضرور کریں لیکن ایک دائرے کے اندر تا کہ ملکی معیشت کو ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکے۔ شاید اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔