بڑے فنکار…بڑی کرنسی

قیصر افتخار  منگل 16 ستمبر 2014
مقبول پاکستانی گلوکاروں نے روپے کے بجائے ڈالروں میں معاوضہ وصول کرنا شروع کردیا۔ فوٹو: فائل

مقبول پاکستانی گلوکاروں نے روپے کے بجائے ڈالروں میں معاوضہ وصول کرنا شروع کردیا۔ فوٹو: فائل

سُپرپاور امریکہ کی کرنسی ’’یوایس ڈالر‘‘ کواگر دنیا کی سب سے طاقتورکرنسی کہا جائے توغلط نہ ہوگا۔ دنیا بھرمیں ہونے والے کاروبارمیں رقوم کی ادائیگی کے لئے امریکی ڈالر کا انتخاب ہی کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی بیرون ممالک کاروبار کرنے والے لوگ امریکی ڈالرکے ذریعے ہی اپنی رقوم بیرون ملک منتقل کرتے اورمنگواتے ہیں۔ اس لئے امریکی ڈالر کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، لیکن دوسری جانب پاکستان میں امریکی ڈالرکی قیمت میں تیزی کے ساتھ ہوتے اضافہ کی وجہ سے بہت سے لوگ اس کرنسی کوترجیح دیتے ہیں بلکہ اپنے بنک اکاؤنٹس میں امریکی ڈالرز کومحفوظ رکھتے اورچند ہی ماہ میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی مد میں بھاری منافع بھی حاصل کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عرصہ سے ہمارے ملک کے معروف گلوکاروں نے بھی اپنے معاوضے میں امریکی ڈالرزمیں وصول کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ایک طرف تو معاوضہ ڈالر میں مانگا جا رہا ہے تو دوسری جانب معاوضے اس قدربڑھا دیئے گئے ہیں کہ بہت سے لوگ فنکاروں کی ڈیمانڈ  کے بعد ان کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔

ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اورگزشتہ برسوں میں دہشتگردی کے متعدد واقعات کی وجہ سے ملک بھرمیں میوزک پروگراموں کے انعقاد میں غیرمعمولی کمی واقع ہو چکی ہے۔ ایسے میں ہمارے ملک کے معروف اور غیرمعروف فنکاروں کے پاس بیرون ممالک میں ہونے والے میوزک پروگراموں میں پرفارمنس کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں بچا۔ ہمارے ہاں تو’’ ترقی ‘‘ صرف بے روزگاری اور مہنگائی میں ہوئی ہے، باقی سارا نظام توبحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ایسے میں پاکستانی گلوکاروں نے بیرون ممالک بسنے والے ایونٹ آرگنائزنگ اداروں اور پروموٹروں سے رابطے بڑھائے اوراب گلوکاروں کی اکثریت زیادہ امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا، برطانیہ اور مڈل ایسٹ کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں پرفارم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح سے جہاں گلوکاروں کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے، و ہیں ان کے معاوضے آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔

معاوضوں کی اس دوڑمیں لیڈنگ رول بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکاراستاد راحت فتح علی خاں اور پاپ سٹار عاطف اسلم ادا کررہے ہیں۔ دوسری جانب علی ظفر، عارف لوہار، میشا شفیع ، سائیں ظہور، قرۃالعین بلوچ (کیو بی)،  شفقت امانت علیخاں، سجاد علی، نوری بینڈاورجل بینڈ سمیت دیگر گلوکاروں کے معاوضے بھی آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ کوئی 30 ہزار ڈالر کامطالبہ کرتا ہے تو کوئی 20 ہزار ڈالر مانگتا ہے۔

اس کے علاوہ میوزیشنزاور دیگر اسٹاف کی مد میں اضافی ہوائی ٹکٹ، فائیوسٹارہوٹل میں قیام، سفر کیلئے قیمتی گاڑیاں اور دیگر ’’آسائشیں‘‘ پیکیج کا حصہ بنالی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے پروموٹر اور شوآرگنائزرز کے اخراجات میں مزید اضافہ کروادیا جاتا ہے۔ اس وقت بیرون ممالک پرفارم کرنے والے فنکاروں میں راحت فتح علی خاں کے گروپ ممبرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان کے ہمراہ 20  کے قریب لوگ سفرکرتے ہیں جبکہ عاطف اسلم اور عارف لوہار کے ہمراہ راحت کے مقابلے سفر کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔

’’یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ راحت فتح علی خاں، عاطف اسلم، علی ظفر، شفقت امانت، عارف لوہار سمیت دیگر کی مقبولیت کسی سی ڈھکی چھپی نہیں ہے اوراسی لئے بیرون ممالک بسنے والے پروموٹر اور ایونٹ آرگنائزر ان کے تمام ناز نخرے برداشت کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس وہ فنکارجن کوسُر تال کی سمجھ ہے اورنہ ہی ان کے گیت مقبول ہیں، وہ صرف اور صرف اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں کی مدد سے ایسے اداروں کے پروگراموں میں پرفارم کرنے کیلئے پہنچ جاتے ہیں جن کوان کے میوزک کی سمجھ تو نہیں آتی مگر وہ پاکستان سے بہتر تعلق اور کلچر کے فروغ کی مد میں بھاری معاوضہ ادا کردیتے ہیں ‘‘۔

ہمارے ملک کے لیونگ لیجنڈ غزل گائیک استاد غلام علی اور صوفی گلوکارہ عابدہ پروین بھی ڈالر کمانے کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ دونوں عظیم گلوکار آج سے نہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے پرفارمنس کا معاوضہ امریکی ڈالروں میں وصول کرتے ہیں۔ ان کو پرفارمنس کے لیے جب بھی کوئی غیر ملکی پروموٹر یا شو آرگنائزر دعوت دیتا ہے تو ان کے معاوضے میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی ٹیم میں شامل افراد میں کوئی کمی ہوتی ہے۔

اس ساری صورتحال میں تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بھاری معاوضہ وصول کرنے والے ہمارے معروف گلوکار ’ انکم ٹیکس ‘ کی ادائیگی تو کرتے ہیں لیکن وہ اپنی آمدنی کا اصل چھپاتے ہیں اور گوشواروں میں خود کو انتہائی پریشان حال ظاہر کردیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔ اس حوالے سے متعدد بار خبریں اور خصوصی رپورٹس میڈیا میں آچکی ہیں لیکن ’’سسٹم‘‘  میں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔

چند برس قبل جب بھارت میں گلوکار راحت فتح علی خاں کوغیرملکی کرنسی رکھنے کی مد میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے بعد جہاں پکڑی جانے والی ساری رقم بطور سزا رکھ لی گئی تھی، وہیں ان پر بھارت آمد پر پابندی بھی لگادی گئی تھی۔ اس خبر کے بعد راحت کو پاکستان میں بھی بھاری انکم ٹیکس ادا کرنے کا نوٹس جاری کیا گیا تھا لیکن پھر بااثر افراد کی مداخلت سے معاملات کو دبا دیا گیا تھا۔ اسی طرح دیگر گلوکار بھی اپنے اثرورسوخ کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے انکم ٹیکس کی ادائیگی میں ڈنڈی مارجاتے ہیں۔

معروف گلوکاروں کے امریکی ڈالروں میں معاوضوں کے حوالے سے میوزک کے شعبوں کے سنجیدہ حلقوں نے ’’ ایکسپریس ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملکی حالات کے باعث ہمارے گلوکار اب بیرون ملک ہی پرفارم کرنے کیلئے مجبور ہیں، اسی لئے ان کو شو کی فیس وصول کرنے کیلئے غیرملکی کرنسی میں ہی ادائیگی کی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے گلوکاروں نے غیرملکی کرنسی میں اکاؤنٹس کھلوا رکھے ہیں جوبہت ضروری ہے لیکن اس میں کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے کہ جس کوغیرقانونی قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ ہمارے گلوکار باقاعدگی سے ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔

جہاں تک پروموٹروں اور ایونٹ آرگنائزرز سے اضافی ہوائی ٹکٹ اور دیگر آسائشیں لینے کی بات ہے تو یہ ڈیمانڈ صرف چند گلوکاروں کی پوری ہوتی وگر نہ پروموٹرز سے گلوکاروں کی اکثریت کے ساتھ معمول میں پرفارم کرنے والے میوزیشن کو بھی غیرملکی دوروں پر ساتھ نہیں آنے دیتے۔ اس لئے ہمیں تصویر کے دونوں رخ دیکھنے چاہئیں۔ حکومت کو فوری طور پر ملکی حالات کو سازگار بنانا چاہئے تاکہ ہمارے گلوکار پاکستان میں آزادنہ پرفارم کرسکیں اور لوگ بھی انٹرٹین ہوسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔