گڈ گورننس یا بیڈ آمریت، ذمہ دار کون؟

عارف رمضان جتوئی  پير 26 جنوری 2015
بات اچھی جمہوریت یا بری آمریت کی نہیں، بات تو خود کو بدلنے کی ہے۔ ہماری اکثریت کو اِس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ یہاں کونسا نظام ہے مگر سروکار ہے تو اِس بات سے کہ اُنہیں عزت کے ساتھ بنیادی سہولیات میسر آجائیں۔ فوٹو: ایکسپریس

بات اچھی جمہوریت یا بری آمریت کی نہیں، بات تو خود کو بدلنے کی ہے۔ ہماری اکثریت کو اِس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ یہاں کونسا نظام ہے مگر سروکار ہے تو اِس بات سے کہ اُنہیں عزت کے ساتھ بنیادی سہولیات میسر آجائیں۔ فوٹو: ایکسپریس

لائٹ گئی، لائٹ آگئی۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے محب وطن پاکستانیوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔ جمہوریت سے لیکر کر آمریت تک اور پھر آمریت سے لیکر جمہوریت تک ہر دور میں بجلی کا مسئلہ پیش پیش رہا ہے۔

گزشتہ شب جوں ہی بریک ڈاؤن ہوا، ایک بھرپور آواز آئی بجلی چلی گئی۔ یہ خاموش آواز سوشل میڈیا پر بسنے والوں کے دلوں سے نکلی اور ان کے ہاتھوں کے پوروں سے ہوتی ہوئی سیدھی ان کی ٹائم لائن اپڈیٹ ہوگئی۔ اس کے بعد تو ایسی دھینگا مشتی شروع ہوئی کہ جو ہماری قوم کی سرشت میں شامل ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ہوا کیا اور کیسے ہوا، مگر مخالفین کو جیسے موقع مل جاتا ہے اور وہ لگے ہاتھوں اپنے مخالف پر اس کا ملبہ ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔

کسی نے بجلی کے جانے کا ذمہ دار خیبر پختون خواہ حکومت کو ٹھہرایا تو کسی نے وفاق کو اس کا ذمہ دار سمجھا۔ کسی نے اس کو سندھ حکومت کی نااہلی قراردی تو کوئی آمریت اور جمہوریت کا رونا رونے بیٹھ گیا۔

گزشتہ دنوں ملک کو ایک ناگہانی بحران سے نمٹنا پڑ گیا تھا۔ بیتی رات تو کوئی لالٹین اٹھائے نہیں دیکھا گیا تاہم اس دن بوتلیں اٹھائے، موٹرسائیکلوں کو کاندھے دیے بہت سے شیر، ٹائیگرز، اور جیالے سب لائن میں لگے ہوئے تھے۔ سب کے رنگ اترے ہوئے تھے اور سب تقریباً اداس نظر آرہے تھے۔ پیٹرول کے بحران پر گویا ایسا لگا تھا جیسے اللہ نہ کرے ملک واپسی کی راہوں پر گامزن ہوگیا ہے۔

پیٹرول کی قلت ابھی پوری نہیں ہوئی تو شہریوں کو ایک اور جھٹکا لگا۔ وہ جھٹکا گیس کی بندش میں سامنے آرہا ہے۔ یہ جھٹکا بھی کافی پریشان کن ہے اور اگلے چار روز کے لئے شہر قائد کو بھی اس جھٹکے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک اچھی جمہوریت نے ایک بیڈ آمریت کو جیسے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مگر مسئلہ یہاں پر اچھے یا برے کا نہیں ہے۔

ایک ٹی وی کے رپورٹر نے انتہائی جوش میں ایک غریب شخص سے پوچھا کہ آپ کو گڈ گورننس چاہیے یا بیڈ آمریت تو اس سادہ لوح شخص نے بہت سادہ سے جملوں میں جواب دیا۔ وہ کہنے لگے مجھے یہ تو نہیں معلوم اچھی گورننس اور بیڈ آمریت کیا ہوتی تاہم ہمیں پیٹ بھرنے کے لئے دو وقت کی عزت کی روٹی اور تن ڈھکنے کے لئے کپڑا اور سر چھپانے کے لئے چھت ضرور چاہیے۔ اِس غریب شخص کی آنکھوں میں نااُمیدی کے ساتھ نکلنے والے جملوں نے یقیناًپوری قوم کی ترجمانی کی ہوگی۔

موجودہ صورتحال کی ذمہ داری اگر گڈگورننس یا بیڈ آمریت پر ڈالی جائے تو شاید کچھ حد تک مسئلہ حل ہوجاتا، تاہم یہاں پر مسئلہ کچھ اور ہے۔ ہماری قوم میں شخصیت پرستی کی پوجا کا سلسلہ جب تک جاری رہے گا ہماری یہی صورتحال رہے گی۔ اچھی جمہوریت یو یا بری آمریت ہمارا یہیں حال ہوگا جو آج ہورہا ہے۔ آج کل ایک چرچا سننے میں آرہا ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی کی گئی جس کی تحقیقات کا سلسلہ بھی گاہے بگاہے جاری ہے۔ تاہم حال ہی میں دھاندلی سے متعلق بیلٹ پیپرز کی چھان بین کے دوران دو پارٹیاں آپس میں الجھ پڑیں اور ایک دوسرے کو خوب لے دے کیا۔

اب جہاں یہ صورتحال ہوگی وہاں اچھی جمہوریت کبھی بھی دستک نہیں دے سکتی۔ اس بات کو پس پشت ڈال دیا گیا کہ کس نے دھاندلی کی اور کون حق پر ہے، بس شخصیت اور پارٹی پرستی میں ایک دوسرے کے دست گریباں ہوگئے۔ وہ لڑنے والے کچھ وقت کے لئے یہ سوچ لیتے جب پیٹرول کا بحران آتا ہے تو اُس وقت سب لائن میں لگے ہوتے ہیں۔ جب بجلی کا بریک ڈاؤن ہوتا ہے تو تب بھی سب بلا امتیاز اندھیرنگری میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ جب گیس کی بندش ہوتی ہے تو سب مہنگے کرائے دینے، ہوٹل سے کھانا خرید کر کھا رہے ہوتے ہیں۔

بات اچھی جمہوریت یا بری آمریت کی نہیں، بات تو خود کو بدلنے کی ہے۔ اگر آج عوام اچھی ہوتی تو شاید پھر یہ رونا دھونا نہ ہوتا۔ اگر ان بحرانوں سے خود کو نکالنا ہے تو پھر خود کو بھی بدلنا پڑے گا۔ شخصیت پرستی اور پارٹی پرستی کا بت توڑ کر حقیقت پرستی میں جینا ہوگا تب شاید ہم امید کی نئی کرنیں دیکھ پائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عارف رمضان جتوئی

عارف رمضان جتوئی

بلاگر ایک اخبار سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہیں اور گزشتہ سات برسوں سے کالم اور بلاگ لکھ رہے ہیں جبکہ افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں۔ کراچی کی نجی یونیورسٹی سے تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔