وحشت ہی سہی

امجد اسلام امجد  اتوار 1 مارچ 2015
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

عالمی ادب کی تاریخ میں خواتین لکھنے والیوں کا ذکر اٹھارویں صدی عیسوی سے قبل خال خال ہی ملتا ہے ایسا کیوں ہے! یہ ایک بہت لمبی اور پیچیدہ داستان ہے۔

امرِ واقعہ یہی ہے کہ یونان کی سیفو، ہندوستان کی میرا اور عرب کے دور جہالت کی کچھ شاعر خواتین کے علاوہ ایسے نام مشکل سے ہی ملیں گے جو قدامت کے ساتھ ساتھ اپنے ادبی قد کی وجہ سے بھی معتبر اور قابل شناخت ہوں اور تو اور تحریک احیائے علوم اور نشاۃ ثانیہ سے براہ راست مستفید ہونے والے یورپ اور امریکا میں بھی مختلف النوع سماجی حدود و قیود کی وجہ سے بہت عرصے تک خواتین کو مردوں کے قلمی ناموں سے لکھنا پڑتا تھا۔ اس سے باقی دنیا کی صورت حال کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

اردو زبان و ادب میں بھی بیسویں صدی سے قبل جو چند ایک نام ملتے ہیں ان کی حیثیت محض تاریخی ہے۔ اگرچہ مولانا حالی اور محمد حسین آزاد کی انگریزی سرپرستی میں چلائی جانے والی جدید ادب کی تحریک میں کچھ خواتین لکھنے والیوں کے نام اور رسائل سامنے آئے مگر عملی طور پر ان کی نمایاں شمولیت کا آغاز 1920ء کے لگ بھگ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر ہوا۔

یہاں بھی شروع شروع میں قلمی یا کنیت آمیز ناموں کا رواج رہا کہ بالخصوص مسلمان معاشروں کا ماحول اس وقت اس کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ ان کی بہو بیٹیاں اپنے نام سے لکھیں۔ ایسے میں حجاب امتیاز علی، لیڈی سر عبدالقادر اور کچھ اور خواتین آگے آئیں اور پھر ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اس دور کا آغاز ہوا جب خواتین لکھنے والیوں نے نہ صرف مردوں کے دوش بدوش اس میدان میں قدم رکھا بلکہ بعض صورتوں میں ان سے آگے بھی نکل گئیں مثال کے طور پر عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، حاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، جیلانی بانو، بانو قدسیہ، واجدہ تبسم، ادا جعفری، زہرہ نگاہ، کشور ناہید اور ان کے ہم عصر کچھ اور ناموں پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے۔

1960ء سے 1990ء کے درمیانی تیس برسوں میں بھی یہ فصل خاصی شاداب رہی اور بیشمار نام آئے جن میں سے کچھ نے غیرمعمولی شہرت بھی حاصل کی مثلاً پروین شاکر، فہمیدہ ریاض، بشریٰ رحمن، خالدہ حسین، نورالہدی شاہ، حسینہ معین، تب سے 2015ء تک کا زمانہ بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی کہا جا سکتا ہے کہ ان دنوں کچھ خواتین بالخصوص فکشن رائٹرز کمال کا لکھ رہی ہیں جن میں سے نیلوفر اقبال، طاہرہ اقبال، فرحت پروین اور نیلم احمد بشیر تو اب اپنے دور کی پہچان کا مرتبہ حاصل کر چکی ہیں۔

نیلم احمد بشیر کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جسے ’’ہمہ آفتاب‘‘ یا ’’گنی‘‘ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہو گا کہ مرحوم احمد بشیر نہ صرف خود ایک منفرد قلم کار تھے بلکہ ان کی چاروں بیٹیوں نیلم، سنبل، بشریٰ اور اسماء نے بھی فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں بے حد نام کمایا۔ اگرچہ اب بشریٰ انصاری بھی فن کارہ کے ساتھ ساتھ ایک ڈرامہ نگار کی حیثیت میں اپنے آپ کو منوا چکی ہے لیکن ادبی حوالے سے نیلم احمد بشیر کا نام ان میں سب سے معتبر اور نمایاں ہے۔

نیلم نے شادی کے بعد ایک طویل عرصہ امریکا میں گزارا اور اب بھی ہر سال چند مہینے وہاں اپنے بچوں کے ساتھ گزارتی ہے۔ اس کا تازہ ترین افسانوی مجموعہ ’’وحشت ہی سہی‘‘ بھی اس سفر کا ایک اگلا پڑاؤ قرار دیا جا سکتا ہے۔ 232 صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں 26 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔

میں نیلم کی کہانیوں کا پرانا اور مستقل قاری ہوں۔ جس رواں دواں اور سادہ مگر پُرکار اسلوب میں وہ بہت ادق، پیچیدہ اور قدرے ممنوعہ موضوعات پر کھل کر لکھتی اور اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرتی ہے وہ اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔

بیشتر اچھے افسانہ نگاروں کی طرح اس کی کہانیوں کے مرکزی کردار بھی اس کے مشاہدے اور تجربے دونوں کا مجموعہ ہوتے ہیں اس لیے ان میں حقیقت اور مثالیت کا ایک ایسا انوکھا امتزاج نظر آتا ہے کہ یہ کہانی ختم ہونے کے بعد بھی مدتوں نہ صرف آپ کو یاد رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات عام زندگی میں دکھائی بھی دے جاتے ہیں۔ یوں وہ فکشن میں Reality کو اس طرح سے ساتھ لے کر چلتی ہے کہ اس کی کہانیاں اور کردار اپنے اپنے سے دکھائی دینے لگتے ہیں۔

کہیں کہیں وہ کہانی کو افسانہ نگاروں کے مخصوص اور آزمودہ طریقے یعنی ایک Shocking Climax سے ہٹ کر ایسی جگہ پر بھی ختم کر دیتی ہے جہاں بہت کچھ قاری کی فہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بظاہر ایک خطرناک طریقہ ہے لیکن اس سے کہانی کار کی جرأت اور اپنی تحریر کی طاقت پر اعتماد کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

اس ضمن میں اس کی دو بہت شاندار اور مگر دل ہلا دینے والی کہانیوں ’’قیمتی‘‘ اور ’’اثاثہ‘‘ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک اور بہت حیران کن کہانی ABCD کو بھی اسی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

یوں تو اس مجموعے کی بیشتر کہانیاں کسی نہ کسی وجہ سے خصوصی توجہ کی مستحق ہیں مگر دو کہانیاں ’’بانو‘‘ اور ’’ستارہ‘‘ جو ہم سب کے دیکھے بھالے اور مانوس کرداروں روحی بانو اور صبیحہ خانم کے بارے میں ہیں نیلم کے گہرے مشاہدے، کہانی کے ٹریٹ منٹ اور اپنے موضع کی بعض لرزا دینے والی کیفیات کی وجہ سے قاری کو ایک ’’معمول‘‘ کی طرح سے اپنے ساتھ ساتھ چلنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ بعض اوقات انھیں پڑھتے ہوئے آنکھ تک جھپکنا دشوار ہو جاتا ہے۔

یہ دونوں کہانیاں نسبتاً طویل بھی ہیں لیکن نہ صرف یہ کہ ان کی طوالت محسوس نہیں ہوتی بلکہ جی ابھی کچھ دیر اور ان کی فضا میں رہنا چاہتا ہے۔ ان کا کریڈٹ مرکزی کردار کو تو جاتا ہی ہے لیکن مصنفہ کے ہنر کی داد بھی واجب ہے کہ اس کے انداز بیان کے جادو میں دھیان کسی اور طرف جاتا ہی نہیں۔

ان کہانیوں میں امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے طرز حیات اور ان کی وہاں پیدا اور پلنے والی نسل نو کے خیالات، نظریات، مسائل اور طرز فکر کا پتہ بھی چلتا ہے کہ پیدائشی طور پر امریکی شہری ہونے کے باوجود ان کا مذہب، اسلاف، کلچر اور DNR کے ذریعے ان تک منتقل ہونے والا ناسٹلجیا ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ کے آشوب میں بھی مبتلا رکھتا ہے۔

سو جب کبھی وہاں کا معاشرہ انھیں We کے بجائے You سے مخاطب کر کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جا رہا ہے اور جب وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی شخصیت کا فطری توازن ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے اور وہ اپنی Belonging یا نسبت ڈھونڈنے کے لیے بعض اوقات ایسے رستوں پر بھی چل نکلتے ہیں جو انھیں دو نمبر شہری کے درجے سے بھی محروم کر کے Out law’s کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔

نیلم احمد بشیر نے کئی کہانیوں میں ایسے کرداروں کو موضوع بنایا ہے اور ہر بار ہمیں اس حقیقت کے کسی نئے پہلو سے متعارف کرایا ہے۔

نیلم کے بیانیے کی اصل قوت اس کا مشاہدہ اور بے تکلف انداز بیان تو ہے ہی مگر کردار نگاری میں بھی اس کا ایک اپنا انداز ہے۔ اس کی کہانیوں میں اسکرین پلے کے بعض عناصر بھی کہیں کہیں در آتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ان کہانیوں کو ڈرامے کی شکل میں لکھے تو وہ ایک اچھی اور کامیاب ڈرامہ نگار بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

ممتاز مفتی نے بہت برس پہلے اس کے بارے میں لکھا تھا: ’’نیلم، احمد بشیر کی سب سے ٹیلنٹڈ بیٹی ہے اور مجھے یقین ہے وہ ایک دن دنیائے ادب میں اپنی جگہ ضرور بنائے گی۔‘‘

سو ان کی یہ پیش گوئی تو پوری ہو گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیلم اپنی اس حاصل کردہ جگہ کو کس قدر پھیلاتی اور مستحکم کرتی ہے کہ کسی بلند مقام تک پہنچنا اپنی جگہ پر ایک مشکل عمل ہے۔ مگر اس جگہ پر اپنے قیام کو مستقل بنانا اس سے بھی مشکل تر کام ہے۔ سو اب اس کو پہلے سے زیادہ محتاط اور مشّاق ہونا پڑے گا کہ تخلیقی لکھاریوں کی ہر نئی تحریر ان کے اور ان کے قارئین کے لیے ایک نیا امتحان ہوتی ہے کیونکہ فن کی دیوی بھی احمد ندیم قاسمی کے اس شعر جیسی ہوتی ہے کہ

جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔