ایک ہوتا ہے مشہور لیڈر، اور ایک ہوتا ہے مشہور اسٹار۔ لیڈر عوام کی رہنمائی کرتا ہے اور فرنٹ سے لیڈ کرتا ہے۔ اس کے کارکنان ہوتے ہیں جو نظریاتی طور پر اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جب کہ مشہور سیاسی شخص یا پبلک فیگر کا فین کلب ہوتا ہے۔
فین کلب کےلیے نظریہ اہم نہیں ہوتا بلکہ وہ مشہور شخصت اہم ہوتی ہے جس کو وہ پوجنے لگتے ہیں۔ اسی طرح لیڈر اگر انقلاب کی بات کریں یا کسی تحریک کی بات کریں تو وہ ہمیشہ فرنٹ سے لیڈ کرتا ہے او خود قربانی کےلیے تیار رہتا ہے، جب کہ مشہور شخص صرف اور صرف نعرے بازی سے کام لیتا ہے اور نعرہ انقلاب بلند کرکے عوام کو آگے کردیتا ہے۔
لیڈر کےلیے ضروری نہیں کہ اس کے لاکھوں فالوورز ہوں، وہ تن تنہا بھی لیڈر ہی ہوتا ہے لیکن مشہور آدمی کےلیے ہجوم کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں یہ فیصلہ لینا تھوڑا مشکل ہے کہ لیڈر کون ہے اور مشہور کون۔ لیکن تاریخ میں دیکھا جائے تو کچھ ایسے لیڈر ضرور نظر آتے ہیں جو طویل عرصہ جیل میں رہے مگر اپنی تحریک سے پیچھے نہیں ہٹے اور کارکنوں سے پہلے خود آگے آگے رہ کر مشکلات کا سامنا کیا۔ ان لیڈروں میں عبدالصمد خان اچکزئی، جی ایم سید، باچا خان اور سب سے آگے ذوالفقار علی بھٹو نظر آتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد شخص تھے جو پورے ملک میں مشہور بھی تھے اور لیڈر بھی۔
لیڈر نظریہ لے کر پروان چڑھتا ہے اور اس پر کاربند رہتا ہے اور اس پر قربانی دینے کےلیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ لیڈر کی سب سے بڑی پہچان بہادری ہوتی ہے۔ لیڈر اپنے نظریے پر ڈتا رہتا ہے اور سودے بازی نہیں کرتا۔ سقراط بھی اپنے دور کا لیڈر تھا، کیونکہ جس نظریے پر قائم تھا اس پھر آخری دم تک کھڑا رہا۔ تاریخ یونان میں ملتا ہے کہ اسے جیل سے فرار کروانے کےلیے اس کے چاہنے والوں نے بڑا زبردست پلان کیا مگر سقراط نے فرار ہونے سے انکار کردیا کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ اگر وہ بھاگ گیا تو اس کا نظریہ غلط ثابت ہوگا اور پھر سقراط نے ہنستے ہنستے زہر کا پیالہ پی لیا۔
میں نے اپنے بڑوں سے سنا اور تاریخ میں لکھی گئی تحریروں میں پڑھا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہونے والی تھی تو کچھ ممالک چاہتے تھے کہ وہ ملک چھوڑ جائیں تاکہ جان بخشی ہوجائے اور ایک بہادر لیڈر انتقام کا نشانہ بننے سے محفوظ ہوجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کے بڑے بڑے لوگوں نے بھی یہ آفر کی تھی کہ آپ ملک چھوڑ جائیں تو جان کی امان پا جائیں گے۔ لیکن نظریے پر کھڑے شخص کو موت کا خوف نہ رہا اور تمام آفرز ٹھکرا دیں اور ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔
انقلاب کے نعرے لگاکر عوام کو جذباتی بنانا آسان کام ہوتا ہے اور انقلاب کے نظریے پر کھڑے رہنا سب سے مشکل کام۔ انقلاب کیا ہوتا ہے؟ انقلاب کےلیے جبر سہنا پڑتا ہے، ظلم سہنا پڑتا ہے، نظریات پر قائم رہنا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر مقتدرہ کو بلیک میل کرکے مفادات حاصل کرنے کے بجائے للکارنا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں انقلاب کا فارمیٹ تھوڑا عجیب دکھائی دیتا ہے، جہاں انقلاب کے نام پر عوام کو مقتدرہ کے سامنے دھکیل دیا جاتا ہے، دباؤ بنا کر اپنے اہداف حاصل کیے جاتے ہیں اور عوام بے وقوفوں کی طرح اس جعلی انقلاب میں اپنی زندگیاں برباد کردیتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ دور میں عوام کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ لیڈر کون ہے اور مشہور پبلک فگر کون ہے؟ عوام کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ بزدل کون ہے اور بہادر کون؟ عوام کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ نظریے پر کون قائم ہے اور کون ہے جس کا نظریہ صرف کرسی ہے۔ پاکستانی عوام کو مشہور شخصیت اور لیڈر میں فرق تلاش کرنا ہوگا، ورنہ وہ استعمال ہوتے رہیں گے اور اپنی زندگیوں کو مشکل میں ڈالتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔