ماہ صیام؛ رحمتوں، برکتوں اور انعام و اکرام کی موسلادھار بارشوں کا مہینہ

راحیل گوہر  جمعـء 3 جولائی 2015
اس کی ابتدا میں رحمتیں سایہ فگن ہوتی ہیں، درمیان میں مغفرت کی نوید سنائی گئی ہے اور اختتام سے قبل جہنم کی تباہ کن آگ سے نجات کا وعدہ کیا گیا ہے۔  فوٹو: فائل

اس کی ابتدا میں رحمتیں سایہ فگن ہوتی ہیں، درمیان میں مغفرت کی نوید سنائی گئی ہے اور اختتام سے قبل جہنم کی تباہ کن آگ سے نجات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

اﷲ سبحانہ تعالیٰ کی یہ شانِ کریمی ہے کہ وہ رحمن و رحیم ذات اپنے خطا کار اور نافرمان بندوں پر بھی اپنی بے پایاں رحمت و شفقت فرماتی ہے اور اس دنیا میں انھیں اپنی رضا اور خوش نودی کے حصول کے بار بار مواقع فراہم کرتی ہے کہ شاید بھٹکے ہوئے راہی کو اپنی صحیح منزل نظر آجائے۔ رب تک پہنچنے کا راستہ تقویٰ کی کٹھن اور دشوار گزار گھاٹیوں سے ہوکر گزرتا ہے جو بندے کا تعلق اپنے خالق سے جوڑ دیتا ہے۔

اسلام نے اپنے پیروکاروں پر جو عبادات فرض کی ہیں ان میں روزہ ایک ایسی عظیم الشان اور روحانیت سے لبریز عبادت جو اﷲ کا قرب حاصل کرنے کا بے مثال ذریعہ ہے۔ اس لیے اس عبادت کا مقصد ہی تقویٰ کا حصول ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوسکے۔‘‘ ( البقرہ ) احادیث میں روزے کو گناہوں سے بچانے والی ڈھال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ڈھال تقویٰ کا متبادل لفظ ہے جو انسان کو گناہوں اور مفاسد عمل سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ روزہ ڈھال ہے، پس جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بے حیائی کی باتیں کر ے اور نہ بدکلامی کرے اور اگر کوئی اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑنے جھگڑنے پر اتر آئے تو کہے کہ میں روزے سے ہوں۔‘‘ (رواہ المسلم)۔ گویا روزہ کی حالت میں بندہ انتہائی محتاط انداز سے زندگی گزارے تاکہ اس کے اندر خوف خدا پیدا ہوسکے۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں جو روحانیت اور ملکوتیت کا جوہر خاص رکھا ہے، روزہ اس کو ترقی دینے اور اس کی آبیاری کرنے، نفس کی تطہیر اور تزکیے کا خاص ذریعہ ہے۔ معاملات زندگی میں قناعت اور صبر و تقویٰ جیسی ملکوتی صفات کی نشوونما میں روزے کو خاص دخل ہے۔ اس کے علاوہ روزہ کی حالت میں انسان پیٹ اور شہوت نفس کے خالص مادی اور بہیمی تقاضوں سے لا تعلق ہو کر ملاء اعلیٰ اور عالم ملکوت سے ایک روحانی ربط اور مناسبت پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس مناسبت اور روحانی تعلق کے لیے اخلاص نیت اور عمل صالح شرط اولین ہے۔

رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ جس شخص نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کر نا نہ چھوڑا تو اﷲ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ (رواہ البخاری، ابوداؤد و ترمذی)

رمضان کا مہینہ بے پایاں رحمتوں، برکتوں اور انعام و اکرام کی موسلا دھار بارشوں کا مہینہ ہے۔ اس کی ابتدا میں رحمتیں بندوں پر سایہ فگن ہوتی ہیں، درمیان میں مغفرت کی نوید سنائی گئی ہے اور اختتام سے قبل جہنم کی تباہ کن آگ سے نجات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے رمضان کے روزے ایمان اور اجر و ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘ (متفق علیہ)

رمضان میں ہی روزے کی فرضیت کے ساتھ رب کائنات کا اپنے بندوں پر ایک اور احسان عظیم یہ ہوا کہ اس ماہ کی ایک مبارک رات میں قرآن حکیم جیسی کتاب نازل فرمائی جو بنی نوع انسان کے لیے ایک نہایت جامع اور مکمل ہدایت نامہ اور رشد و ہدایت کا پیغام ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے اجر و ثواب کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی ذات سے منسوب کیا ہے اور روزہ دار بندوں کے لیے انتہائی عزت و شرف کا مقام ہے۔ ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے: ’’ روزہ خالصتاً میرے لیے رکھا جاتا ہے لہٰذا اس کی جزا میں خود ہی دوں گا۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ روزے کی جزا میں خود ہوں۔ تمام فرض عبادات میں روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کا ظاہر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور بندہ خلوت میں ہونے کے باوجود اکل و شرب کے استعمال اور تمام نفسانی خواہشات کی تسکین سے خود کو روکے رکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس رنگ و بو کی دنیا میں ان گنت خواہشات اور نفسانی ترغیبات انسان کو اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں۔ نفس کے ان منہ زور تقاضوں سے دامنِ کردار کو بچا کر زندگی بسر کر نا ہی تقویٰ کہلاتا ہے۔ تقویٰ کی اسی صفت کے ترفع اور سیرت کی عفت و پاکیزگی کے لیے اﷲ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔ روزوں کی یہ سالانہ مشق اہل ایمان میں اس صفت عالی کو پیدا کرنے کے لیے کر وائی جاتی ہے۔ لیکن اس سالانہ تربیت میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس کو پورے شعوری احساس کے ساتھ انجام دیا جائے۔ غیر ارادی اور خشیت الٰہی کے بغیر رکھے ہوئے روزوں کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ کتنے روزے دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی راتوں کو قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کے پلے اس مشقت سے رت جگے کے سوا کچھ نہیں پڑتا۔‘‘ ( سنن الدارمی)

رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’ روزہ دار کے منہ کی بو اﷲ کے نزدیک مشک کی خوش بو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ جب کوئی امت اس کی پا بندی کرتی ہے تو ان کے شیاطین کے پاؤں میں زنجیر پڑجاتی ہے۔ روزہ دار کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔‘‘

عبادتوں کے ضمن میں جو کچھ اﷲ نے اپنے بندوں پر فرض و واجب کیا ہے اس میں ان کی روح کی تسکین و راحت کے علاوہ طبی فوائد بھی مضمر ہیں، جو روزے رکھنے سے ازخود حاصل ہوجاتے ہیں۔ سارا دن بھوک و پیاس آدمی کے نظام ہضم کو اعتدال پر لے آتی ہے۔ رات میں تراویح میں قیام، رکوع و سجود کرنے میں اچھی خاصی جسمانی مشقت ہوتی ہے جب کہ عام حالات میں آدمی اپنی دنیاوی مصروفیات کی بناء پر ایسا نہیں کر پاتا۔ چناں چہ دن کا روزہ اور رات کو قرآن کا سننا آدمی کے لیے روح و بدن کی تازگی، شگفتگی اور فرحت و انبساط کا باعث بنتا ہے اور یہی عمل انسان کے لیے یوم آخرت میں نجات کا وسیلہ بھی بن سکتا ہے۔

اﷲ اپنے بندوں کو بار بار اپنی طرف پلٹنے کے بے شمار مواقع فراہم کرتا ہے لیکن ہم خواب غفلت میں پڑے رہتے ہیں۔ اسلام میں عبادات کا نظام انسان کو ان بھاری ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار کرتا ہے جو اسلامی اقدار، نظریے اور عقائد کی مستحسن طریق سے نشوونما اور ان میں استحکام پیدا کرنے کے لیے ہیں اور ان میں سب سے اہم اور مؤثر چیز تقویٰ ہے، جو انسان کے تمام اعمال کی جڑ اور بنیاد ہے۔ کیوںکہ تقویٰ کی روح کے بغیر ہر عمل بے اثر ہوتا ہے۔ روزے میں تقویٰ اپنے تمام تر تقاضوں کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے اسے اپنی ذات کے ساتھ منسوب کیا ہے۔ اور یہی نسبت انسان کے لیے قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ بن جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔