خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی سُن لے

اوریا مقبول جان  جمعـء 4 ستمبر 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

مدتوں سے میرا یہ دستور رہا ہے کہ میں آج کے پُر آشوب دور میں ان لوگوں کے دفاع کو اپنا فرضِ عین سمجھتا ہوں جو نامساعد حالات، زمانے کی بے رخی، معاشی حالات کی سِتم ظریفی اور اہلِ اقتدار کے ظلم و ستم کے باوجود منبر و محراب پر اللہ کے دین کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ مسجد کا ایک خطیب دانستہ یا نادانستہ طور پر اسلام کی علامت ہے اور ان لوگوں نے کمال جانفشانی سے اس علامت کو قائم رکھا ہے۔

ان کے اسلاف جن کے یہ وارث ہیں انھوں نے عمر بھر ایک دوسرے کے خیالات، نظریے، عقیدے اور تشریح و توضیح کا احترام کیا۔ فقہ کے چاروں امام اپنی تشریح کو ایک رائے تصور کرتے تھے اور دوسرے کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ یہ سب تمہید مجھے اس لیے باندھنا پڑ رہی ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل میں نے ” ہمارے افسانہ ساز مؤرخین” کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہم اپنی ایمانیات، عقائد اور ان محترم شخصیات، جن کے کردار کی گواہی اللہ نے قرآن اور رسول اللہ نے اپنی احادیث میں دی ہے، انھیں تاریخ کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھیں گے تو یہ ظُلمِ عظیم ہو گا۔

اس لیے کہ تاریخ بے سر و پا داستانوں اور جھوٹ سچ کا ملغوبہ ہے۔ دنیا کی کوئی تاریخ اپنے سچے اور کھرے ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ جنھیں اللہ صدیقین، شہدا اور صالحین کے لقب سے پکارتا ہے اور سید الانبیأﷺ جن کے مرتبے کی تصدیق کرتے ہیں ان کو تین سو سال بعد لکھے جانے والے جھوٹ اور سچ کے پلندے، یعنی تاریخ کی گواہی پر رکھ کر پرکھنا زیادتی ہے۔ مسلمان دنیا میں فخر کے ساتھ سینہ تان کر ایک بات کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے حدیث نویسی جو مغرب کے ہاں بھی تاریخ ہی کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے۔

اس میں جرح و تعدیل اور اسمأالرجال کا ایک ایسا علم ایجاد کیا، جس نے یہ طریقہ وضع کیا کہ ہر سنی سنائی بات یا روایت اس قابل نہیں ہوتی کہ اسے تحریر کیا جائے جب تک اس کو بیان کرنے والے اپنے کردار میں سچے، ایماندار اور صاحبِ امانت نہ ہوں۔ لیکن دنیا کی ہر تاریخ جھوٹے اور کذاّب راویوں کی روایتوں سے بھری پڑی ہے۔

کسی بھی مسلمان مؤرخ نے کبھی بھی اس معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیا۔ میں نے اس سلسلہ میں تاریخِ طبری کا حوالہ خاص طور پر دیا تھا، کیونکہ یہ مغرب کے ان مصنفین کی محبوب کتاب ہے جو رسول اللہﷺ  اور ان کے ساتھیوں پر دشنام طرازی کرنا چاہیں تو انھیں حوالے اسی قسم کی کتابوں سے ملتے ہیں۔ اس پر یار لوگوں نے طبری کے دفاع میں بہت کچھ لکھا اور میں نے جواب میں صرف یہ نوٹ تحریر کیا کہ ” طبری پر لکھنا میں رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اپنا فرض سمجھتا تھا۔ کیونکہ دو واقعات ایک حضرت زینب اور حضرت زید کی طلاق اور دوسرا واقعہ غرانیق  طبری نے جس انداز میں بیان کیا ہے کوئی انھیں کالم میں لکھنے کی ہمت تو ایک طرف پڑھنے کی برداشت نہیں رکھتا” ۔

میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب میرے سیکولر دوست تو میری اس وضاحت پر خاموش ہو گئے، لیکن چند علمائے اُمت اپنی تلواریں سونت کر مجھ پر پل پڑے۔ وہ لوگ جن کا دفاع میں صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتا رہا ہوں۔ ان علماء نے طبری کا دفاع صرف اس لیے کیا کہ گزشتہ چند سو سالوں سے ان کے مدارس میں تفسیرِ جلالین پڑھائی جاتی ہے اور اس میں اس واقعہ غرانیق کا ذکر ہے، جس کا ماخذ طبری کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔

سب سے پہلے ولیم میؤر نے اس واقعہ کے حوالے سے اپنے غلاظت بھرے مضامین لکھے۔ دفاعِ طبری اور میری مذمت کا سلسلہ ملکوں ملکوں پھیل گیا اور تازہ ترین مضمون بھارت کے مولانا عبد المتین منیری صاحب نے تحریر کیا ہے۔ پہلے تو انھوں نے مجھے طنزاً سول سروس سے وابستہ کہہ کر بات کا آغاز کیا اور پھر شک ظاہر کیا کہ شاید میں عربی زبان سے ناواقف ہوں اور یہ بھی فرض کر لیا کہ میں نے ہو سکتا ہے انگریزی ترجمے سے تاریخِ طبری پڑھی ہو۔ انھوں نے مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور معافی مانگنے اور غلطی کا علی الاعلان اظہار کرنے کے لیے کہا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ سے معافی تومیں دن رات مانگتا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس روئے زمین پر میں بہت ہی گناہ گار اور عاصی شخص ہوں جس کی بچت صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہﷺ کی شفاعت کے بغیر ممکن نہیں۔ میرا عربی کا علم بھی کمزور ہے اور میں علومِ دین کے سمندر کا اس طرح غواص نہیں جیسے علماء دین ہوتے ہیں۔ میں خود کو ان کے سامنے طفلِ مکتب سمجھتا ہوں۔ لیکن میں کیا کروں کہ جب قرآن پاک ایک واقعہ کی تفصیل بیان کرتا ہے، اور معتبر احادیث میں بھی اس کی تفصیل بالکل ویسی ہی ہوتی ہے۔ لیکن تین سو سال بعد پیدا ہونے والا مؤرخ بالکل اس کے الٹ تحریر کر رہا ہوتا ہے۔ تاریخ کا تو عالم یہ ہے کہ خود ابن جریر طبری کے ایک ہونے کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔

ایک ابن جریر بن رستم اور دوسرا ابن جریر بن یزید ہے اور دونوں ہی مصنفین ہیں۔ ایک کو شیعہ علماء طبا طبائی، ابن الندیم، علی بن داؤد حلی، ابو جعفر طوسی اور سید خوئی اہلِ تشیع میں سے مانتے ہیں اور دوسرے کو سنی علماء امام کا درجہ دیتے ہیں۔ اور کہیں بھی معلوم نہیں پڑتا کہ تصدیق کی جائے کہ کونسی کتاب کس طبری کی لکھی ہوئی ہے۔

لیکن اگر تاریخ طبری کو ہی دیکھا جائے، جو زیرِ بحث ہے تو ڈاکٹر خالد طلال کبیر نے طبری کے اہم راویوں کا جائزہ لیا ہے جو ان کے نزدیک بارہ ہیں۔ یہ طبری کی تاریخ کا بنیادی ماخذ ہیں۔ ان بارہ میں سات وہ ہیں جن پر ائمہ جرح و تعدیل جھوٹے یا متہم بالکذب ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور پانچ ثقہ راوی ہیں۔

اب یہ دروغ گو راویوں یعنی وہ جن پر جھوٹے ہونے کا الزام ہے ان کی روایتوں کی تعداد ملاحظہ کریں۔ محمد بن سائب کلبی (12 ) ،  ہشام بن محمد کلبی (55 ) محمد بن عمر (440)  سیف بن عمر تمیمی(700) ، ابو مخنف لوط بن یحییٰ(612) ہیشم بن عدی (16) محمد بن اسحاق بن یسارکی (164) روایات ہیں ان تمام کو ملا کر 1999  روایات بنتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں طبری نے سچے اور ثقہ راویوں کی صرف 209 روایات کو تاریخ کا حصہ بنایا۔ زبیر بن بکاء (8)، محمد بن سعد (164)، موسیٰ بن عقبہ (7) خلیفہ بن خیاط (1) وہب بن منّبہ(46)۔ تاریخ طبری میں یہ ہے جھوٹے اور ثقہ راویوں کی روایتوں کا تناسب۔ حالت یہ ہے کہ عباسی حاکم معتصد بااللہ کا رسالہ بغیر کسی چھان پھٹک کے تاریخ کا حصہ بنایا گیا جو خالصتاً بنوامیہ سے بغض و عناد اور قبائلی دشمنی کی بنیاد پر تحریر کیا گیا تھا۔

مہتم بالکذب اور جھوٹے راویوں کی روایتیں طبری نے بلا کم و کاست تحریر کر دیں اور کئی تو ایسی ہیں جن میں معمولی سی عقل بھی استعمال کی جاتی تو قصہ جھوٹا محسوس ہوتا۔ جیسے سیدہ زینب والے واقعہ میں ایسے لگتا ہے جیسے رسولِ اکرم نے انھیں پہلی دفعہ دیکھا ہے جب کہ وہ رسولِ اکرم ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں ۔ یہیں سے مؤرخ کی نیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس تاریخ میں اپنی مرضی کے افسانے جمع کرنا چاہتا تھا۔ میرے پاس تاریخ طبری کا جو نسخہ ہے وہ خوش قسمتی سے عربی میں ہے اور قاہرہ سے چھپا ہے اور جسے میں اپنی کمزور عربی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں اور ترجمہ بھی دیکھتا ہوں۔ آپ حیران ہوں گے کہ طبری کی تفسیر کے رجال کا کام تو مصر کے محمود شاکر نے کیا ہے لیکن کسی نے آج تک تاریخ طبری کے رجال اور راویوں پر مفصل کام نہیں کیا۔ اس لیے کہ اگر مسلمانوں کی تاریخ کے راویوں کی تحقیق کی جائے کہ ان میں کردار کے اعتبار سے جھوٹا کون تھا تو پھر آدھی سے زیادہ تاریخ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو گی۔

میرا معاملہ نہ طبری سے پرخاش کا ہے اور نہ ہی بلازری اور ابن سعد سے۔ میرا دکھ یہ ہے کہ جس کسی نے میرے اسلاف پر انگلی اٹھانی ہو، میرے دین کے نقص بیان کرنا ہوں وہ ان مؤرخین کے جمع کیے ہوئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ الحاد کا دروازہ انھی کے جمع کیے گئے جھوٹ سے کھلتا ہے۔ آپ اسلام کے خلاف لکھی جانے والی تمام کتابوں کو اٹھا لیں، توہینِ رسالت  پر مبنی کتب کا مطالعہ کریں اور ان میں کہیں نہ کہیں طبری اور اس کے قبیل کے مؤرخین جھانکتے نظر آئیں گے۔

وہ لوگ انھی کی روایات کو بنیاد بناتے ہیں۔ حیرت ہے وہ تمام شاتمین رسول اللہﷺ  تو ایسی باتیں تحریر کرنے پر واجب القتل قرار دیے جاتے ہیں اور جس مؤرخ نے یہ جھوٹ اکٹھا کر کے تاریخ کا حصہ بنایا وہ محترم۔ پتہ نہیں کیوں میرے ان صاحبانِ علم علماء کرام کو رسول اللہﷺ  کی یہ حدیث یاد نہیں آتی کہ “کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے آگے سناتا پھرے” ۔

کیا ہمارے مؤرخین نے ایسا نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تاریخ مرتب کی جائے جو  حدیث اور تاریخ کے راویوں کی بھی چھان پھٹک کے بعد لکھی جائے۔ اللہ مسعود احمد بی ایس سی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جنہوں نے “تاریخ الاسلام و المسلین” لکھی جو قرآن اور حدیث کی روایتوں پر مبنی ہے۔ یہ انتہائی اہم کام تھا جو مرحوم نے کیا اور یہ ان کی جماعت المسلمین کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس کے ساتھ تاریخ کے راویوں کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ اور ایسی سچی تاریخ ہماری ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔