ڈاکٹر جاوید اقبال کی رحلت

ایڈیٹوریل  پير 5 اکتوبر 2015
اپنے عظیم والد علامہ اقبال کے بارے میں لکھی ہوئی ان کی کتابیں علامہ کی شخصیت کے ایسے پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں جو دیگر شارحین اقبال کی نظروں سے اوجھل رہے۔فوٹو : فائل

اپنے عظیم والد علامہ اقبال کے بارے میں لکھی ہوئی ان کی کتابیں علامہ کی شخصیت کے ایسے پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں جو دیگر شارحین اقبال کی نظروں سے اوجھل رہے۔فوٹو : فائل

مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے صاحبزادے اور سپریم کورٹ کے سابق سینئر جج ڈاکٹر جاوید اقبال 91 برس کی عمر میں ہفتہ کو انتقال کر گئے، مرحوم کینسر کے عارضہ میں مبتلا اور شوکت خانم اسپتال میں زیر علاج تھے، ان کی نماز جنازہ میں چیف جسٹس پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سمیت سیاسی رہنماؤں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جس کے بعد ان کو سپرد خاک کردیا گیا۔ صدر مملکت ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف سمیت ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین نے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔  جاوید اقبال 5 اکتوبر 1924کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی 1944ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز اور پھر ایم اے انگریزی کیا اور ایم اے فلاسفی میں طلائی تمغہ بھی حاصل کیا، 1954ء میں کیمبرج سے پی ایچ ڈی کی اور 1956ء میں بار ایٹ لاء ہوئے۔

1965ء میں ہائیکورٹ بار کے نائب صدر منتخب ہوئے1971ء میں لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے اور مارچ1982ء سے اکتوبر 1986ء تک لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے، پھر انھیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا۔ تین مرتبہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رکن کی حیثیت سے شرکت کی، مرحوم انگریزی اور اردو کی متعدد شہرہ آفاق کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک دانشور کی حیثیت سے سرگرم عمل رہے۔ حکومت نے ہلال امتیاز سے بھی نوازا۔ مرحوم نے سوگواران میں اہلیہ جسٹس (ر) ناصرہ اقبال اور دو بیٹے ولید اقبال اور منیب اقبال چھوڑے ہیں۔ پاکستان میں عدل و انصاف کے فروغ کے لیے ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال  اپنی ذات میں پوری ایک صدی کی تاریخ تھے اور انھیں بھی اپنی اس اہمیت کا ادراک تھا اسی بنا پر انھوں نے آیندہ نسلوں کے لیے علمی اور ادبی کام کا ایک وافر ذخیرہ چھوڑا ہے جس سے قوم کو راہنمائی مل سکے گی۔ اپنے عظیم والد علامہ اقبال کے بارے میں لکھی ہوئی ان کی کتابیں علامہ کی شخصیت کے ایسے پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں جو دیگر شارحین اقبال کی نظروں سے اوجھل رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔