- توشہ خانہ کیس کی نئی انکوائری کیخلاف عمران خان اور بشری بی بی کی درخواستیں سماعت کیلیے مقرر
- فاسٹ ٹریک پاسپورٹ بنوانے کی فیسوں میں اضافہ
- پیوٹن نے مزید 6 سال کیلئے روس کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا
- سعودی وفد کے سربراہ سے کابینہ کی تعریف سن کر دل باغ باغ ہوگیا، وزیر اعظم
- روس میں ایک فوجی اہلکار سمیت دو امریکی شہری گرفتار
- پاسکو کی گندم خریداری کا ہدف 14 لاکھ ٹن سے 18 لاکھ ٹن کرنے کی منظوری
- نگراں دور میں گندم درآمد کی مکمل ذمہ داری لیتا ہوں، انوار الحق کاکڑ
- ایم کیوایم پاکستان نے پیپلزپارٹی سے 14 قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ مانگ لی
- پاک-ایران گیس پائپ لائن پر ہر فیصلہ پاکستان کے مفاد میں کیا جائے گا، نائب وزیراعظم
- ڈالر کے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کم ہوگئے
- کور کمانڈر ہاؤس حملہ کیس؛ 9مئی کے 10ملزمان کی ضمانت منظور
- اذلان شاہ ہاکی کپ: پاکستان اور جاپان کا میچ سنسنی خیز مقابلے کے بعد برابر
- زیتون کا تیل ڈیمنشیا سے مرنے کے خطرے کو کم کرتا ہے، تحقیق
- ماحول سے کاربن کشید کرنے کے لیے نیا طریقہ کار وضع
- عورت کا بھیس بدل کر پولیس کو چکما دینے والا چور گرفتار
- کورنگی میں دو دوستوں کے قتل کی تحقیقات، برطرف پولیس اہلکار کا کرمنل ریکارڈ نکل آیا
- پی ٹی آئی کا 9مئی واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ
- وزیر داخلہ محسن نقوی کوئٹہ پہنچ گئے، وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات
- حکومت کا پنشن بوجھ کم کرنے کے لیے اصلاحات لانے کا اعلان
- پاکستان کو عالمی بینک سے 8 ارب ڈالرز ملنے کی توقع
سرکاری مسیحا اور سرکاری اسپتال
ڈاکٹر آپ کو اور کتنے گھنٹے لگیں گے دوا لکھنے میں؟ میری ماں کی حالت آپ خود دیکھ کے آئی ہیں۔ تو میں یہاں کیا کر رہی ہوں؟ آپ کا پین نیچے پڑا ہے اور آپ ان کو بتا رہی ہیں کہ کل میں نے ’’دل والے‘‘ فلم دیکھی۔ کیا یہ وقت مریض کو دیکھنے کا ہے یا باتیں کرنے کا؟
دوسری ڈاکٹر یکدم کہنے لگیں تو آپ کسی اور اسپتال سے جا کر علاج کروالیں۔ کسی اور سے کیوں؟ یہ سرکاری اسپتال نہیں ہے؟ کیا یہ آپ کا پرائیویٹ کلینک ہے جہاں آپ جیسے اور جس کا چاہیں علاج کریں گے؟
پہلی ڈاکٹر نے فائل میری طرف پھینکتے ہوئے کہا، یہ دوائی لو اور دفع ہوجاؤ یہاں سے! یہ تمیز ہے آپ کی مریضوں سے بات کرنے کی؟ آپ کا انچارج کون ہے یہاں؟ مجھے اس سے بات کرنی ہے۔ میں اب آپ سے بات نہیں کرنے والا۔ اتنی دیر میں وہاں موجود نرسز اور سیکورٹی گارڈز بھی آ گئے اور الٹا مجھے تحَمل سے کام لینے کا مشورہ دیا کہ سرکاری اسپتال میں ایسی باتیں معمولی ہوتی ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ آپ کی ماں کی جان پر بنی ہو اور علاج کرنے والا لاپرواہی سے ساتھ والے کو بتا رہا ہو کہ اسے فلم پسند کیوں نہیں آئی تو مریض کے لواحقین کا کیا حال ہوگا؟ اور اگر اس پر احتجاج کیا جائے تو جواب ملے کہ دفع ہو جاؤ نہیں کرنا علاج۔
ایسی حالت میں جب عام انسان بھی درد سے تڑپتے شخص کی مدد کے لئے تیار ہوجائے باوجود اس کے کہ اسے کچھ پتا بھی نہ ہو تب ایک ڈاکٹر اس طرح کی غفلت دکھائے اور پوچھنے پر دفع ہوجانے اور کسی اور اسپتال سے علاج کرانے کا مشورہ دے تو انسان کیا کر سکتا ہے؟
مجھے یقین ہے کہ میں پہلا یا آخری شخص نہیں جس کے ساتھ سرکاری اسپتال میں اس طرح کا سلوک ہوا۔ یہ ہر دوسرے شخص کی کہانی ہے اور ہر مریض کو تقریباً اسی طرح سے تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہمیشہ ہوتا رہے گا؟ کیا سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والوں کو تنخواہ اور مراعات نہیں ملتیں؟ اگر ملتیں ہیں تو پھر مریضوں کو وہ سلوک اور حقوق کیوں نہیں ملتے جن کا تذکرہ اور چرچا کرتے اور دوسرے ممالک کی مثال دیتے نہیں تھکتے مگر جب یہاں پہ وہ نظام اپنے اوپر لاگو کرنے کا وقت آتا ہے تو یکسر مختلف صورتِ حال نظر آتی ہے۔
ادارے اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ریاست ان کے ذریعے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکے۔ اور ان میں ایسے ’’قابل‘‘ افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ جو معیار پر پورا اتریں اور اس معیار کو چیک کرنے کے لئے ان کے اوپر نگران مقرّر کئے جاتے ہیں۔ مگر وہ نگران کیا کریں گے جب انکو معلوم ہو کے ہمارے ’’خادم‘‘ کی ساری توانائی اور صوبے کا سرمایہ خدمت کے ’’میگا پروجیکٹ‘‘ پر لگ رہا ہے. ایسی صورتِ حال میں صحت، تعلیم، اور حفاظت کو شعبوں کا نظر انداز ہوجانا اور ان میں موجود قلیل سہولتوں کا بھی عوام تک نہ پہنچنا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔
ایک ڈاکٹر کو یہ فکر تو ہے کہ وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے کسی کی جان گئی اور اگر سیاستدان ٹھیک ہوجائیں تو کتنی زندگیاں بچ سکتی ہیں، مگر یہ پتا نہیں ہے کہ اگر وہ ٹھیک ہوجائیں تو ساتھ والے بستر پہ پڑے مریض بچ سکتے ہیں۔ ہم سیاستدانوں کو ٹھیک کرنے کے چکر میں خود کو ٹھیک کرنا بھول گئے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔