چھوٹی سی قربانی!

ایاز خان  جمعرات 29 ستمبر 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو ’’نریندر مودی کے بھارت‘‘کی جارحیت اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے رائے ونڈ مارچ اہم ترین خبریں ہیں۔ بھارت سرجیکل اسٹرائیکس اور ایٹمی حملے کے بعد اب پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔

نریندر مودی پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے ایک پورا دن اپنے فوجی سربراہان کے ساتھ وار روم میں گزار چکے ہیں لیکن لگتا ہے وہاں سے انھیں کچھ نہیں ملا۔ اس کے بعد انھوں نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس دھمکی کے گزشتہ روز موصوف نے 9اور 10 نومبر کو پاکستان میں ہونے والی 19ویں سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ۔جس کے بعد باوجوہ موجودہ نیپالی سیکریٹری جنرل ارجُن بہادر تھاپا نے کانفرنس منسوخ کر دی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سارک کا اگر ایک رکن شرکت نہ کرے تو کانفرنس کو مجبوراً منسوخ کرنا پڑتا ہے۔ انڈیا میں موجود پاکستان کے فنکاروں کو ملک چھوڑنے کی دھمکیوں کے بعد ان فنکاروں کی اکثریت واپس پاکستان آ چکی ہے۔ اکا دکا فنکار جو بھارت میں موجود ہیں انھیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اڑی میں 17 بھارتی فوجیوں کی نامعلوم افراد کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد چند گھنٹے کے اندر بھارتی میڈیا اور لیڈر شپ نے پاکستان پر الزامات لگانے شروع کر دیے تھے۔ اس الزام پر مجھے ایک ہندو انڈین رپورٹر کی کچھ سال پہلے حیدر آباد دکن میں کہی گئی ایک بات یاد آ گئی ہے۔

اس نے کہا تھا ’’انڈیا میں اگر کبھی کسی کی روٹی بھی جل جائے تو الزام لگایا جاتا ہے کہ توا آئی ایس آئی کا تھا‘‘۔ ہندو جرنلسٹ نے یہ بات جب کہی تھی تب نریندر مودی ابھی اقتدار میں نہیں آئے تھے۔ اب تو خیر نریندر مودی اقتدار میں ہیں۔ مودی اور ان کا انڈیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور کشمیریوں کی تحریک کی وجہ سے انڈر پریشر تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونے والا تھا کہ اچانک اڑی میں فوجی ہیڈکوارٹرز پر حملہ ہو گیا۔

بھارت نے پوری کوشش کی کہ پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگا کر دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی اور بھارتی فوج کے مظالم سے ہٹائی جائے۔ بھارتی فوج کے مظالم میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے اور پیلٹ گنز کے استعمال نے ہزاروں کشمیریوں کی بینائی ضایع کر دی ہے، لاتعداد کشمیری زخمی ہیں۔ حریت کانفرنس کی قیادت زیر حراست ہے۔ یاسین ملک پر اتنا تشدد کیا گیا کہ انھیں سرینگر کے ایک اسپتال میں داخل کرانا پڑ گیا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ گذشتہ برس بھارت میں انتہا پسندی کی ایک شدید لہر پیدا ہوئی تھی۔

مسلمانوں اور مسیحی برادری سمیت اقلیتوں پر انتہا پسند ہندو حملے کر رہے تھے۔ دنیا کو بھارت کی انتہا پسندی کا احساس ہونا شروع ہو گیا تھا۔ نریندر مودی ان دنوں ’’اچانک‘‘ کابل سے واپسی پر لاہور پہنچے اور رائے ونڈ کے جاتی امرا ء محل میں ان کی بھرپور عزت افزائی کی گئی۔ ان کے اس ’’اچانک‘‘ دورے نے بھارت میں جاری انتہا پسندی کی اس لہر کا سارا تاثر زائل کر دیا۔

مودی اس کے بعد پورے اطمینان اور طمطراق کے ساتھ واپس انڈیا گئے اور یوں لگا کہ ان کے سارے مسائل ماضی کا حصہ بن گئے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر انڈیا بہت پریشر میں تھا کہ ایک بار پھر ’’اچانک‘‘ ایک بڑا واقعہ ہو گیا ہے۔ بھارت اگر پانی بند کرنے کی دھمکیوں پر عمل کر گزرتا ہے تو پھر یہ کھلا اعلان جنگ ہے۔ وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی منگل کو قومی اسمبلی میں اپنے پالیسی بیان میں یہی کہا ہے۔

ملک کی اندرونی صورتحال کی طرف دیکھیں تو ان دنوں سب سے اہم مسئلہ رائے ونڈ مارچ ہے۔ کپتان نے جب سے رائے ونڈ مارچ کا اعلان کیا ہے ملکی سیاست میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس مارچ کی وجہ 6 ماہ پہلے آنے والی پانامہ لیکس ہیں۔ پانامہ لیکس میں کن کن اہم شخصیات کا نام ہے یہ آپ سب جانتے ہیں۔ پانامہ لیکس میں نام آنے پر استعفیٰ دینے والے بھی آپ کے سامنے ہیں۔ یقیناً مستعفیٰ ہونے والوں میں کوئی ایک بھی پاکستانی نہیں ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون الزامات کے جواب میں فوری طور پر پارلیمنٹ میں پیش ہوئے اور انھوں نے اپنے تمام حسابات ارکان کے سامنے رکھ دیے۔ پارلیمنٹ کو اطمینان ہو گیا اور وہ بریگزٹ کے نتائج آنے کے بعد عہدہ چھوڑنے تک بطور وزیراعظم کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کسی نے ان کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھائی۔ ہمارے وزیراعظم کے بچوں کا نام آیا تو انھوں نے پارلیمنٹ میں جانے سے قبل قوم سے تین عدد خطاب کر ڈالے۔ ان خطابات میں انھوں نے خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا مگر عملاً کیا ہوا۔ کچھ بھی نہیں۔

سپریم کورٹ کو وزیراعظم کی طرف سے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے ایک خط لکھا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس خط کو غیر سنجیدہ قرار دے کر حکومت کو واپس بھجوا دیا۔ اس کے بعد ٹرم آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کا شور مچ گیا۔ حکومتی اور اپوزیشن وفد ٹی او آرز کی تیاری میں لگ گئے۔ تین چار ماہ کی عرق ریزی کے بعد ٹی او آرز کا معاملہ اپنی موت آپ مر گیا، اپوزیشن کو البتہ پیر کو سینیٹ میںایک کامیابی اس وقت ملی جب پانامہ لیکس پر انکوائری کمیشن کا بل رائے شماری کے بعد قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ عمران خان نے رائے ونڈ مارچ کی کامیابی کے لیے لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کو روزانہ کی بنیاد پر کپتان کا جواب دینا پڑتا ہے۔ دونوں طرف سے لفظی گولہ باری جاری ہے۔ عمران سے اگر کہا جائے کہ وہ تین سال سے مسلسل سڑکوں پر ہیں تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ انھیں جب کسی ادارے سے انصاف نہیں مل رہا تو وہ ہار مان کر گھر نہیں بیٹھ سکتے۔ حکومت کی طرف سے ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ سرحدوں پر جارحیت کا خطرہ ہے اور وہ قوم میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے بجائے انتشار کی سیاست کر رہے ہیں۔

کپتان کا موقف ہے کہ بچوں کے نام پانامہ لیکس میں آنے کے بعد اگر نواز شریف پارلیمنٹ میں آ کر یہ ثبوت فراہم کر دیتے کہ لندن کے فلیٹس کب خریدے گئے اور ان کے لیے رقم کہاں سے آئی تو معاملہ ختم ہو چکا ہوتا۔

حکومت کی حکمت عملی تو پہلے دن سے یہ رہی ہے کہ اس مسئلے پر وقت حاصل کیا جائے تاکہ اپوزیشن کا زور ٹوٹ جائے اور 2018ء کے الیکشن آ جائیں۔ عمران خان البتہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اگرچہ سڑکوں پر احتجاج کے لیے تیار نہیں ہیں مگر عمران رائے ونڈ مارچ کی تیاریاں کر رہے ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی نااہلی کے لیے سراج الحق اور عمران خان کی درخواستوں پر رجسٹرار کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ کھلی عدالت میں زیر سماعت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد عدلیہ پر اعتراضات فی الوقت ختم ہو گئے ہیں اور کپتان نے وزیرداخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو تحفظ دیں تاکہ ماضی کی طرح ن لیگ ایک بار پھرعدلیہ پر حملہ نہ کر دے۔

بھارتی جارحیت کے مقابلے کے لیے قوم میں اتحاد ہونا چاہیے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا رائے ونڈ مارچ ملتوی کرنے سے ایسا ممکن ہے۔ اگر ہاں تو پھر کپتان کو چاہیے کہ وہ رائے ونڈ مارچ ملتوی کر دیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کی تقریباً تمام جماعتیں چاہتی ہیں کہ نواز شریف پانامہ لیکس پر جواب دیں۔ وہ فی الوقت جواب دینے کے موڈ میں نہیں لگ رہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ قومی یکجہتی اور اتحاد کے لیے عمران خان رائے ونڈ مارچ ملتوی کریں اور نواز شریف اپنی پارٹی میں سے کسی اور کو وزیر اعظم نامزد کر دیں۔ ایسا ہو سکے تو قوم میں اتحاد بھی پیدا ہو جائے گا اور پانامہ لیکس کا مسئلہ بھی وقتی طور پر حل ہو جائے گا۔ چھوٹی سی قربانی ہے لیکن دیکھتے ہیں کون ہمت کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔