مسلمان پستی میں

عبدالقادر حسن  منگل 27 فروری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کئی سو سال پہلے کی بات ہے جب مسلمانوں کی سیاسی قوت میں زوال آیا، ان کی  فوجی برتری ختم ہو گئی اور وہ رفتہ رفتہ غیر مسلموں کے محکوم ہو گئے توان کے اندر ایک ایسی ذہنی کمزوری پیدا ہو گئی جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتیوں کو ماند کر دیا اور انھوں نے وقت کی غالب قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

مسلمانوں کے بچے کچھے صاحب دانش لوگ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے اس کے اسباب اور اس سے نجات کے طریقے دریافت کرتے رہے۔ مسلم امہ پر کفر کی نئی یلغار نے جہاں مسلمان نوجوانوں میں مر مٹنے کا جذبہ پیدا کر دیا، وہاں ان کے ارباب علم و دانش نئے حالات میں نئے راستوں کی تلاش میں مصروف ہو گئے اور یہ تلاش ابھی جاری ہے، مسلمانوں کے صاحب فکر لوگ امریکی کی مسلم دنیا پر نئی یلغار نے حالات و واقعات کو بہت ہی بدل دیا ہے لیکن اس سے پہلے بھی مسلم امہ کے حالات پر مسلمانوں کے صاحب فکر لوگ تشویش میں مبتلا رہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مسلم دنیا مسلسل زوال اور پستی کا شکار ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی۔

اہل فکر لوگ اس تلاش میں ہیں کہ مسلمانوں کو اس پستی سے نکالنے کے لیے کس وعظ و نصیحت کی ضرورت ہے تا کہ یہ اپنے اوپر مسلط کی جانے والی نئی یلغار کا کامیابی سے سامنا کر سکیں۔ امریکا کے 9/11 کو ایک طویل عرصہ بیت چکا لیکن اس کے اثرات مسلم دنیا پر اپنے ایسے نقوش ثبت کر گئے جن کا ابھی تک مداوا نہیں ہو پا رہااور مسلمان مسلسل غربت اور پستی میں ہی جا رہے ہیں اور یہ ان کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔

قرآن پاک کی آیت جس کا ترجمہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ رزق کو کشادہ کرتا ہے جس کے لیے وہ ایسا چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے‘‘۔ اس آئت میں وضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ کسی کو بھی یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ اس کا رزق اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کے حصول پر بغیر کسی مزاحمت کے قادر ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ رزق کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کے تحت انسان کو ملتا ہے ۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ سعی اور تدبیر آپ نہ کریں ۔ سعی اور تدبیر تو بہر حال انسان کو کرنا ہی پڑے گی اس لیے کہ یہ آپ کا امتحان ہے کہ آپ نے حلال راستہ اختیار کیا ہے یا حرام لیکن ملتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کر دیا گیا ہے، اس میں سے کسی کا حصہ کچھ زیادہ ہے کسی کا کم ۔

زیادہ حصے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زیادہ اہل تھا اس لیے اس کو زیادہ حصہ دے دیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ زیادہ دے کر انسان کو آزماتا ہے کہ یہ اس زیادہ پر شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی طرح کسی کا رزق تنگ کر دیا جاتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ کسی کمی کا مالک تھا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو آزماتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ مشکل کے باوجود میرا بندہ کتنا صابر ہے یعنی وہ اس کے صبر کا امتحان لیتا ہے اور دوسری صورت میں اس کے شکر کا۔

اس زمانے میں دنیا میں جن قوموں کو دنیا ملی ہے تو واقعہ ہے کہ انھوں نے دنیا کمانے کا حق بھی ادا کیا ہے۔  ہماری طرح سوتے نہیں رہے، زندگی کے جتنے ضابطے بھی ہیں اجتماعی زندگی کے ہوں یا انفرادی زندگی کے ہوں سب ضابطے فطرت کے مطابق ہیںاور آپ پر عبادت کی طرح واجب ہیں اگر آپ ان ضابطوں کو ترک کر دیں گے تو اس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا۔

دنیا میں مسلمان ایک عرصہ دراز تک دنیا پر اسی طرح حاوی رہے ہیں جس طریقہ سے آج یورپ اور امریکا کی قوتیں حاوی ہیں۔ ایک وقت تھا  مسلمانوں کی تہذیب کی تقلید کی جاتی تھی، ان کے فیشن کی نقل کی جاتی تھی۔ اس وقت یہ بات تھی کہ وہ صلاحیتیں جو اجتماعی زندگی کی علامت ہیں زندہ تھیں سائنس میں بھی اور ایجادات میں بھی۔جب آپ ان چیزوں کو چھوڑ کر زندگی گزارنے کے دوسرے تصورات میں کھو جائیں گے تو پھر یہ خدشہ ضرور ہے کہ جو کچھ آپ کو حاصل ہے کہیں چھن نہ جائے۔

میں ہرروز دعا کر تا ہوں کہ اے رب اس ملک کی کشتی کو تو بچا کر نکال ،اس کے لیڈروں کو عقل سلیم دے اور دشمنوں کو ذلیل و خوار کر اپنی اوقات کے مطابق میں اپنی ڈیوٹی دے رہا ہوں ۔موجودہ دور میں کافر و مشرک قوموں کی حکمرانی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں کی ملت کی جو شان ہے وہ کہیں بھی موجود نہیں ہے اگر کہیں ہے بھی تو حقیقت میں وہ ان مشرک قوتوں کے زیر سایہ محتاج ہیں جب تک آپ اپنے اندر مسلمانی جذبہ پیدا نہیں کریں گے آپ کی کوئی جماعت مسلمہ نہیں بن سکتی۔ جب ملت مسلمہ بن جائے گی تب وہ سب کو چیلنج کر سکتی ہے سب کے ساتھ پنچہ آزمائی کر سکتی ہے اور اس میں کئی شبہ نہیں کہ مسلم ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔

آپ اپنے ملک کو ہی دیکھ لیں کہ کیاہو رہا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگ حکومت میں حصہ داری کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ حقوق ہوں ، چھوٹے یا بڑے ، بس ملتے رہیں ۔ باقی رہ گیا کہ حکومتی ذمے داریاں کیا ہیں تو یہ لیڈر لوگوں کو بھی معلوم نہیں کہ حکومت کی ذمے داری کیا ہوتی ہے حکومت کی ذمے داریوں کو سمجھے بغیر آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بھی عزت حاصل ہو تو عزت افراد کو نہیں حاصل نہیں ہوتی عزت تو اجتماعی زندگی کو حاصل ہوتی ہے اور اس سے زیادہ آپ کیاچاہتے ہیں۔یہ اجتماعی زندگی ہو گی تو آپ کو قومی عزت حاصل ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔