- یقین ہے اس بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ساتھ لائیں گے؛ بابر اعظم
- پاکستانی نوجوان سعودی کمپنیوں کے ساتھ مل کر چھوٹے کاروبار شروع کریں گے، وفاقی وزرا
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمتوں میں بڑا اضافہ
- جنوبی وزیرستان: نابینا شخص کو پانی میں پھینکنے کی ویڈیو وائرل، ٹک ٹاکرز گرفتار
- پنجاب پولیس نے 08 سالہ بچی کو ونی کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیا
- حکومتی پالیسی سے معیشت مستحکم ہو رہی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا ہوگا، وزیر خزانہ
- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ایئرفورس کے قافلے پر حملہ؛ 1 ہلاک اور 4 زخمی
- پی ٹی آئی کا شیخ وقاص اکرم کو چیئرمین پی اے سی بنانے کا فیصلہ
- گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل نے عہدے کا حلف اٹھالیا
- کراچی اور لاہور میں ایک پاسپورٹ دفتر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ
- پرویز الٰہی کو جیل سے اسپتال یا گھر منتقل کرنے کی درخواست منظور
- کراچی میں منشیات فروشوں کی فائرنگ سے 2 دوست جاں بحق
- سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل
- پختونخوا حکومت کاشتکاروں سے 29 ارب روپے کی گندم خریدنے کیلیے تیار
- حماس کی اسرائیلی فورسز پر راکٹوں کی بوچھاڑ، 3 فوجی ہلاک، 11 زخمی
- گندم اسکینڈل؛ کون سی راکٹ سائنس ہے؟
- زہریلے کنکھجورے گردوں کی بیماری کے علاج میں معاون
- ناسا کا چاند پر جدید ریلوے سسٹم بنانے کا منصوبہ
- ایران کے صحرا میں بنایا گیا ویران شہر
- خشک دودھ کی درآمد پر پابندی، امپورٹ ڈیوٹی بڑھانے کا مطالبہ
روبوٹ تو ہمارے ہاں بنتے ہیں
’’پیپر‘‘ صاحب برطانوی پارلیمنٹ میں پیش ہوکر تاریخ بناگئے، وہ یوں کہ موصوف دنیا کی کسی پارلیمنٹ میں آنے والے پہلے روبوٹ ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حامل اس روبوٹ کو جاپان اور یورپی یونین کے اشتراک سے بنایا گیا ہے، اس منصوبے کا مقصد ثقافتی آگاہی رکھنے والے روبوٹس کی تیاری ہے۔
پیپر نے پارلیمنٹ کے چنیدہ ارکان کی کمیٹی سے مکالمہ کیا اور مصنوعی ذہانت کے مستقبل کی بابت پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب دیے۔ اس نے روبوٹس کے مستقبل میں کارآمد ہونے کے حوالے سے کہا کہ بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کے لیے تیارکردہ مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹ اسپتالوں اور کیئر ہومز پر پڑنے والا دباؤ کم کرسکیں گے اور بزرگ شہریوں کے کسی پر انحصار کے بغیر زندگی گزارنے میں ان کے مددگار ثابت ہوں گے۔
بھلا ہو ان مغرب والوں کا جو ہر اعزاز اور ریکارڈ اپنے نام کرنے کی ہوس کا شکار ہیں۔ اب اسی معاملے کو لیجیے۔ بھئی آپ کیا مصنوعی ذہانت والے روبوٹس بناکر انھیں پارلیمنٹ میں پیش کرکے تاریخ بنائیں گے، ہم تو یہ کام عرصے سے کر رہے ہیں۔
آپ کا روبوٹ تو سوالوں کا جواب دینے پارلیمنٹ میں حاضر ہوا تھا، ہمارے ملک میں تو روبوٹ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، جہاں وہ جو کہتے ہیں اپنے محفوظ کردہ ’’پروگرام‘‘ کے عین مطابق کہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو کسی فنی خرابی کے باعث ’’پروگرام‘‘ سے ہٹ کر اور بڑھ کر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں، یہ وہ موقع ہوتا ہے جب اپنی جماعت اور لیڈر کے مخالفین پر برسنا ہو۔
یہ روبوٹس خاصے خودکار ہوتے ہیں، سو وقت اور حالات بدلنے پر ازخود کارروائی کرتے ہوئے ایک کمپنی سے دوسری کمپنی کو منتقل ہوجاتے ہیں، جہاں نئی چپ لگاکر ان کا پروگرام مکمل طور پر تبدیل کردیا جاتا ہے۔ بعض روبوٹس تو تین تین چار چار کمپنیاں بدلتے ہیں اور ہر بار نئی چِپ اور پروگرام کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ ہمارے ان روبوٹس اور دنیا کے اس نوع کے دیگر روبوٹس میں فرق بس اتنا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت والے روبوٹ بناتے ہیں اور ہمارے ہاں مصنوعی شرافت، مصنوعی حمایت اور مصنوعی سیاست والے روبوٹ بنائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں تو گلی گلی ایسے روبوٹ مل جائیں گے جن میں کسی سیاسی جماعت اور قیادت کا پروگرام نصب ہوتا ہے۔ جوں ہی متعلقہ قائد یا سیاسی جماعت کی کوئی رائے، موقف یا اقدام سامنے آتا ہے اس کا ’’پروگرام لگے‘‘ روبوٹ اپنی روبوٹانہ ہکلاہٹ کے ساتھ ۔۔۔’’با۔۔۔ لکل۔۔۔ ص۔۔۔ حیح۔۔۔ سو۔۔۔ فی۔۔۔ صد۔۔۔ دُر۔۔۔ ست۔۔۔۔ کو۔۔۔ ئی۔۔۔ شک۔۔۔ ن۔۔۔ہیں‘‘
کہنا شروع ہوجاتے ہیں، اور جیسے ہی کوئی ان کی جماعت اور قیادت کی مخالفت میں کچھ کہہ دے ان کی گفتگو ’’ن۔۔۔ہیں۔۔۔جھووووٹ۔۔۔۔غلط‘‘ سے شروع ہوکر مغلظات پر ختم ہوتی ہے۔
امریکا، یورپ اور جاپان ایسے روبوٹس نہیں بناتے، وہاں مدتوں پہلے ایسے روبوٹس کو آدمی بنالیا گیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔