گلوبلائزیشن

جمیل مرغز  پير 12 نومبر 2018

یہ تو عام مشاہدے کی بات ہے اور کہا بھی جاتا ہے کہ دنیا سکڑ کر ایک گلوبل ویلج (عالمی گاؤں) میں تبدیل ہوچکی ہے اب وہ دن گئے کہ امریکا جانے کے لیے یا وہاں مقیم کسی عزیز کی خیریت معلوم ہونے کے لیے مہینے لگتے تھے‘ یورپ یا عرب ممالک میں ہونے والے کسی واقعے کی اطلاع مہینوں بعد کسی تجارتی قافلے یا مسافر کے ذریعے یہاں پہنچتی تھی۔ اب تو نئی سائنسی ایجادات کی وجہ سے زمین کی طنابیں کھنچ گئی ہیں ‘فاصلے مٹ گئے ہیں اور دنیا کی مثال ایک گاؤں کی ہوگئی ہے اب کسی بھی ملک میں رونما ہونے والا کوئی بھی حادثہ یا واقعہ پوری دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے۔

9/11کا حادثہ نیویارک میں پیش آیا اور آج پوری دنیا اس کے اثرات کی زد میں ہے’’ وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ کی مہم کے حق میں اور عراق پر حملے کے خلاف پوری دنیا میں بیک وقت مظاہرے ہوتے ہیں‘ویسٹ انڈیز جیسے دور دراز علاقے میں کھیلے جانے والا کرکٹ میچ اپنی ٹی وی سکرین پر گراؤنڈ میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے زیادہ بہتر طریقے سے دیکھا جا سکتا ہے۔سمندری طوفان ہو یا آتش فشاں پہاڑ سے نکلنے والا لاوا ‘یہ سب نظروں کے سامنے ہوتا ہے‘ جب جیب میں پڑے ہوئے چھوٹے سے موبائل کا بٹن دبایا جاتا ہے تو دبئی اور سعودی عرب کو چھوڑو لاطینی امریکا کے چلی جیسے دور دراز ملک کے دارالخلافے سانتیاگو میں ایک سیکنڈ میںہماری آواز پہنچ جاتی ہے۔

نیویارک یا ٹوکیو کے اسٹاک ایکسچینجوں میں کوئی بھی تبدیلی پوری دنیا کی اقتصادیات کو متاثر کرتی ہے کسی قدرتی آفت مثلاً زلزلے یا طوفان وغیرہ کی صورت میں گھنٹوں کے اندر دنیا بھر سے امداد آنی شروع ہوجاتی ہے۔عام طور پر دنیا بھر میں ہونے والے زلزلے کی شدت اور اس کے مرکز کے بارے میں امریکا کی جیولوجیکل سروے کا زلزلہ پیما مرکز سب سے پہلے ہمیں معلومات مہیا کرتا ہے۔ دنیا کے اس قدر مختصر ہونے اور آپس میں رابطے بڑھنے کے اس عمل کو سیاسی اورعلمی حلقوں میں لفظ ’’گلوبلائزیشن‘ ‘(Globalization) سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ کہنے کو تو یہ ایک لفظ ہے لیکن اصل میں اس لفظ کے ساتھ بہت سے سیاسی‘معاشی اور ثقافتی مسائل اور ان سے متعلق رویوں میں تبدیلیاں منسلک ہیں گلوبلائیزیشن نے خاص کر غریب اور ترقی پذیر ممالک کے عوام کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔

صرف اطلاعات کا انقلاب نہیں آیا بلکہ ساتھ ساتھ معاشیات سمیت ہر میدان میں اس کی وجہ سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، عالمی سامراجی طاقتوں کی لوٹ مار اور غریب ملکوں کی منڈیوں تک رسائی کو ’’فری مارکیٹ‘‘ اقتصادیات کہتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں مغربی یا خاص کر امریکی سیاسی ‘اقتصادی اور ثقافتی یلغار اور اس کے نتیجے میں ان کا غلبہ ‘اطلاعاتی ٹیکنالوجی جیسے ٹیلیفون ‘ انٹرنیٹ اور اس سے قبل ٹیلی گراف اور فیکس وغیرہ کا دنیا بھر میں پھیلاؤ‘ خلاء کی وسعتوں میں اطلاعاتی سیاروں کی بھرمار اور اس کے نتیجے میں ایک عالمی اطلاعاتی انقلاب‘ جس کی وجہ سے آپ گھر میں یا زمین کے نیچے بھی نہیں چھپ سکتے ‘ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ چینلوں نے ترقی پذیر معاشروں کو بدل ڈالا ہے۔

اسی طرح سفر کے تیز ترین وسائل مثلاً بلٹ ریل‘بحری اور ہوائی جہاز کے استعمال نے فاصلے مٹا دیے، ان سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دنیا بھر کو ایک گاؤں میں بدل دیا ہے‘گپ شپ اور خاص باتیں ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیم‘ گلوبلائزیشن کے عمل نے سیاسی طور پر بھی دنیا کو متاثر کیا ہے۔ ہر ملک کے فیصلے نیویارک کی ایک بلڈنگ میں ہوتے ہیں، کہنے کو تو اس بلڈنگ میں اقوام متحدہ کے دفاتر ہیں اور جہاں پر جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل جیسے ادارے دنیا میں امن کے لیے کردار ادا کرتے ہیں لیکن حقیقت میں اس تمام عمل کے پیچھے عالمی طاقتوں کا کھیل جاری ہوتا ہے ‘ویٹو کا حق رکھنے والے ممالک پوری دنیا میں اپنے مفادات کے مطابق سیاسی اور معاشی  پالیسیاں بناتے ہیں یہ فیصلے بھی اس بلڈنگ میں ہوتے ہیں کہ کس ملک میں کس فرد کی یا پارٹی کی حکومت ہونی چاہیے ۔قبائلی ملکوں کی جدید شکل۔

اسی طرح گلوبلائزیشن کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی ثقافتی زندگی بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔ عیسائی دنیا میں ہر سال 14فروری کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ (Velentine’s Day)منایا جاتا ہے۔ یہ خاص کر یورپ کے ممالک کا تہوار تھا اب سب سے زیادہ یہ تہوار ہندوستان اور پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ کرسمس ‘ویلنٹائن ڈے ‘دیوالی ‘دسہرہ اور بسنت اب پاکستان میں بھی بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اب ہمارے شہروں میں کرسمس کے موقعے پر’’ سانتا کلاز‘‘ بھی بچوں میں تحفے بانٹتے نظر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں بچوں کی پیدائش ذرا زیادہ ہے۔ لڑکی کی شادی میں عام طور پر خاندان کی عورتوں کو اکٹھا کرکے تھوڑا سا کھانا پکا کر ان کو کھلایا جاتا اور بارات والوں کو ایک کپ چائے پلاکر لڑکی کو رخصت کردیا جاتا۔ اب تو لڑکی کی شادی بھی ایک پورا مسئلہ بن گئی ہے۔پشاور میں ایک شادی میں شرکت کے لیے شادی ہال میں بیٹھے تھے ‘ہمارے ایک کھاتے پیتے دوست کی بیٹی کی شادی تھی، بارات کے لیے شادی ہال میں بندوبست کیا گیا تھا کم از کم 10لاکھ کا خرچہ۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے گریڈ 18کے ایک لیکچرر دوست نے کہا کہ میری پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں ماہانہ تنخواہ میں بمشکل گزارہ ہوتا ہے اس لیے میں پریشان ہوں کہ ان حالات میں لڑکیوں کی شادیاں کیسے کروں گا۔ انٹرنیٹ اور فیس بک میں اردو اور پشتو رسم الخط کا بیڑا غرق کرکے رومن رسم الخط کو فروغ دیا  جا رہا ہے۔

اس طرح اگر ایک طرف گلوبلائیزیشن قوموں کی معاشی ‘سماجی اور ثقافتی ورثے کو تباہ کر کے ان پر مغربی اور خاص کر امریکی کلچر مسلط کر رہی ہے تو دوسری طرف ریاستوں کی خودمختاری اور وسائل کو بھی تباہ کر رہی ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے غریب ممالک کا گلہ دبا رکھا ہے، گلوبلائزیشن کے اس دور میں اگر ایک طرف قوموں کے وسائل‘ شناخت اور ثقافت خطرے میں ہے تو دوسری طرف ’’ریاست‘‘ عالمی سامراجی اداروں کے مقابلے میں آہستہ آہستہ پسپائی اختیار کر رہی ہیں۔گلوبلائزیشن کا سب سے بڑا ذریعہ عالمی مارکیٹ پر چھائی ہوئی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں ہیں، کسی بڑی کمپنی کے منافع کی بھوک اور زیادہ پیداواری گنجائش کی مارکیٹ مقامی گاہک سے پوری نہیں ہوتی یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں منافع اور لوٹ مار کی تلاش میں نئے منزلوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔

اس مقصد کے حصول میںیہ کمپنیاں نہ ریاستوں کو خاطر میں لاتی ہیں اور نہ ان کی سرحدوں اور قوانین کو۔جب تجارت پیشہ طبقے نے جمہوری اصلاحات کا مطالبہ کیا تو جس طرح بادشاہی نظام والی ریاست اور تجارت پیشہ طبقے کے درمیان اس وقت ایک تضاد پیدا ہوا اسی طرح موجودہ دور میں خود مختار قومیں اور ریاستیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پسند نہیں ہوتیںکیونکہ یہ ان کے منافع کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہیں، اگر واقعی کوئی ریاست خود مختار ہو تو پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ان کی شرائط کے مطابق ریاست میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ ایک خودمختار ریاست ہر حال میں اپنے عوام کے مفاد کا خیال رکھے گی اس کے لیے وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ان صنعتوں میں سرمایہ کاری پر مجبور کرے گی جو وہاں کے عوام کے مفاد میںہو، اس کے علاوہ ایک خود مختار ریاست ان کمپنیوں کے سامنے مقامی کمپنیوں کو تحفظ دینے ‘مقامی ضروریات کی فراہمی ‘مقامی آبادی کی ملازمتوں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسی شرائط بھی رکھے گی۔

ریاست اس منافع کی شرح پر بھی پابندی عائد کرسکتی ہے‘ جو یہ کمپنیاں اپنے ممالک کو لے جاسکتی ہیں جب کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں صرف اپنی شرائط پر کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ حکومت مقامی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرے سرمایہ کاری پر پابندیوں اور ان شرائط کی وہ سخت مخالفت کرتی ہیں جو ان کی سرگرمیوں اور منافعوں کو محدود کرے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہتی ہیں کہ ان کو اپنی مرضی سے سرمایہ کاری اور منافع کمانے کی مکمل آزادی حاصل ہو ۔اگر مقامی قوانین ان کمپنیوں کی خواہشات کی راہ میں رکاوٹ ہوں تو پھر کمپنی کی خواہشات کو نہیں بلکہ ریاست کے قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا۔ پچھلی چند دہائیوں میں کمپنیوں اور ریاستوں کے مابین بہت سے سرمایہ کاری کے باہمی معاہدے ہوئے۔ کہنے کو تو سرمایہ کاری کے یہ معاہدے دو ریاستوں کے درمیان ہوتے ہیں لیکن اصل میں ان کا مقصد سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔

ان کے لیے ہر قسم کے تحفظات حاصل کیے جاتے ہیں۔اب تو گلوبلائزیشن کے سرخیل امریکا اور یورپ بھی تنگ ہیں اور قوم پرستی کی طرف جا رہے ہیں۔اب سب سے بڑا سوال یہ بھی ہے کہ نئی ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے پسماندہ قوموں کی ترقی کے راستے بھی کھلے ہیں‘لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ ان حالات میں گلوبلائزیشن اور قوی خود مختاری کے درمیان توازن اور تعلق کیسے پیدا کیا جائے۔گلوبلائزیشن کے فائدے سمیٹتے ہوئے قومی خود مختاری کا تحفظ آج کا اہم سوال ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔