- لاہور میں جرمن سفیر کی تقریر کے دوران فلسطین کے حامی مظاہرین کا شور شرابا
- کراچی میں اُدھار نہ دینے پر 60 سالہ دُکان دار قتل
- خیبر؛ پولیس پر حملوں اور طلبہ کے اغوا میں ملوث انتہائی مطلوب دہشتگرد مارا گیا
- جسٹس بابر آڈیو لیکس کیس سے الگ ہوجائیں، چار اداروں نے متفرق درخواست دائر کردی
- وزیر پیداوار کا سرسبز یوریا کی قیمت میں اضافے کا سخت نوٹس
- اسلام آباد میں غیر ملکی شہریوں کی سیکیورٹی کیلئے اسپیشل فورس بنانے کا فیصلہ
- پنجاب پولیس کی خاتون افسر عالمی ایوارڈ کے لیے منتخب
- لاہور ائرپورٹ؛ تھائی لینڈ سے غیر قانونی درآمد 200 نایاب کچھوے برآمد
- امتحانات میں ناکامی کی عمومی وجوہات
- پختونخوا میں بارشیں جاری، گندم کی فصلیں بری طرح متاثر
- کوچنگ کمیٹی کی سربراہی ’ناتجربہ کار‘ کے سپرد
- PSOکا مالی سال 2024کے9ماہ میں 13.4ارب روپے کا منافع
- وسیم اکرم نے پانڈیا کے ساتھ سلوک کو ’برصغیر‘ کا مسئلہ قرار دے دیا
- فخرزمان میچ فنش نہ کرنے پر کف افسوس ملنے لگے
- ہیڈ کوچ اظہر محمود نے شکست میں بھی مثبت پہلو تلاش کرلیے
- راشد لطیف نے ٹیم کی توجہ منتشر ہونے کا اشارہ دیدیا
- اسرائیلی بمباری میں شہید حاملہ خاتون کی بعد از وفات پیدا ہونے والی بیٹی بھی چل بسی
- تصویر کو شاعری میں بدلنے والا کیمرا ایجاد
- اُلٹی چلنے والی گاڑی سوشل میڈیا پر وائرل
- امریکا میں شرح پیدائش کم ترین سطح پر آگئی
مصنوعی ذہانت اور نوع انسانی کو درپیش خطرات
عملی زندگی میں مصنوعی ذہانت کے فوائد ان گنت ہیں اور ہر کوئی ان کے گن گاتا بھی ہے۔ مگر کیا مصنوعی ذہانت کے مضمرات بھی ہیں؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا ہم ان مضمرات سے آگاہ اور تیار بھی ہیں؟
کہنے کو مصنوعی ذہانت خوش آئند ہی سہی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی ترویج سے انسان بے دست و پا ہوکر رہ جائیں گے۔ کروڑوں اربوں انسان بے روزگار ہو جائیں گے۔ خوبصورتی اور رنگینی کے معیارات بدل جائیں گے۔ انسان ایک دوسرے سے ہم آہنگی بڑھانے کے بجائے انسان نما روبوٹس کی طرف مائل ہوں گے۔ جنسی ملاپ اور بارآوری کےلیے متبادل ذرائع ڈھال لیں گے، اصل انسانوں کی قدر و قیمت مصنوعی انسانوں کے سامنے ماند پڑجائے گی۔
پچھلے سال این ویڈیا (Nvidia) نامی ایک ٹیکنالوجی فرم نے ایک ایسا پروگرامنگ الگورتھم ترتیب دیا جو تقریبا 70 ہزار انسانی چہروں کی بناوٹ اور تاثرات کو پروسیس کرکے ان سے ایسی ایسی مصنوعی پورٹریٹس بنا کر پیش کرتا ہے جو سو فیصد اصل انسان لگتے ہیں۔ کسی کو ذرا بھی شائبہ نہیں ہوسکتا کہ ان تصاویر والے انسان اس روئے زمین پر اس وقت کہیں بھی موجود نہیں، نہ ماضی میں کبھی پیدا ہوئے اور نہ مستقبل میں کبھی پیدا ہوں گے۔ یہ اپنی ذات میں یکتا اور انمول ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ مستقبل میں بات صرف ان پورٹریٹس تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے مصنوعی انسان آپ کو اپنے آس پاس زندہ انسانوں کی طرح ہر جگہ چلتے پھرتے بھی دکھائی دیں گے۔ یہ وہ انسان ہوں گے جو نیند، تھکن، بیماری اور موت جیسی انسانی زحمتوں اور بول و براز جیسی آلائشوں سے قطعی پاک ہوں گے۔ یہ ہر وہ کام کرسکیں گے جو آج کے انسان کرسکتے ہیں۔ یہ ہر وہ کام بھی کرسکیں گے جو آج کے انسان اپنی محدود ذہنی و جسمانی استعداد کی وجہ سے نہیں کرپاتے اور ناکام رہتے ہیں۔
آپ گھر میں پابند سلاسل ہوں گے مگر آپ کی نقل ہر جگہ مستعد نظر آئے گی۔ آپ کی کمی کسی کو محسوس نہیں ہوگی۔ ایک وقت آئے گا جب آپ نقل شمار ہوں گے اور وہ اصل، کیونکہ صلاحیتوں میں وہ آپ سے کہیں بڑھ کر ثابت ہوں گے۔ پھر وہ وقت بھی آئے گا، اور لازم ہے کہ ضرور آئے گا، جب یہ مصنوعی ذہانت خود سے فیصلے لینے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرے گی اور پھر ہم انسان کہیں کے بھی نہیں رہیں گے… نہ گھر کے، نہ گھاٹ کے۔
نوع انسانی کو دوسرے جانداروں پر سبقت صرف اپنی اعلی ذہانت، بروقت اور درست فیصلہ سازی کے طفیل نصیب ہوئی ہے۔ اگر انسان اپنی یہ صلاحیتیں اپنے سے کہیں زیادہ پائیدار اور باصلاحیت مشینوں کے سپرد کریں گے تو نتائج خود انسانوں کےلیے تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت گو کہ انسانوں کی تخلیق ہے مگر یہ وہ عفریت ہے جو بہت جلد مجازی دنیا سے باہر آکر حقیقی دنیا کے انسانوں کے وسائل، ان کے روزگار، ان کے جذبات اور ان کی زندگیوں پر مکمل قابض ہوجائے گا۔ تب پہلی بار انسانوں کو محسوس ہوگا کہ حیاتیاتی ارتقا ان کےلیے کس قدر سست اور کم پائیدار نظام ثابت ہورہا ہے۔ یہی جہد للبقاء کا وہ بے رحم ارتقائی اصول ہوگا جو اس دنیا سے مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں بنی نوع انسان کو بے دست و پا ثابت کرکے بالآخر معدوم کردے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔