- یوم تکبیر پاکستان کے جوہری تجربات کی تاریخی کامیابی کی یاد دلاتا ہے، مسلح افواج
- پاکستان کی رفح میں پناہ گزینوں کے کیمپ پر اسرائیلی بربریت کی شدید مذمت
- تیسرے بچے کی پیدائش؛ جوز بٹلر پاکستان کیخلاف تیسرا ٹی ٹوئنٹی نہیں کھیلیں گے
- کراچی میں بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ سے شہری بلبلا اٹھے، مختلف علاقوں میں احتجاج
- ججز کیخلاف شکایات کے جلد فیصلوں کیلئے چیف جسٹس کو خط ارسال
- نیب آرڈیننس کی نئی ترمیم منظور، ریمانڈ کی مدت 14 دن سے بڑھا کر 40 روز کردی گئی
- رواں سال یوم عرفہ کا خطبہ ڈاکٹر ماہر بن حمد المعقیلی دیں گے
- مارگلہ کی پہاڑیوں پر لگنے والی آگ کئی گھنٹوں بعد بھی مکمل نہ بجھ سکی
- بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اچانک بجلی منقطع، ایوان اندھیرے میں ڈوب گیا
- پاکستان ریلوے میں ساڑھے 12 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف
- کھلے سمندر میں کارروائی کے دوران 10 ارب روپے کی آئس پکڑی گئی
- رفح کراسنگ پر مصری اور اسرائیلی فوج آمنے سامنے؛ خونی جھڑپ
- پاپوا نیو گنی؛ لینڈ سلائیڈنگ میں 2 ہزار سے زائد افراد زندہ دب گئے
- امریکا پاکستان کے معاشی مستقبل کیلئے مضبوط پارٹنر ہے، ڈونلڈ بلوم
- رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں بجٹ کا 64 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ
- اللہ تعالیٰ بانی پی ٹی آئی کو مجیب الرحمان جیسے انجام سے بچائے، راناثناء اللہ
- فرانس،اسپین اور اٹلی سمیت متعدد ممالک کی اسرائیل کے رفح پر حملے کی مذمت
- وزیراعظم کا آج یوم تکبیر پر عام تعطیل کا اعلان
- دوبارہ لڑکی پیدا کیوں کی؟ شوہر، سسر اور دیور کا خاتون پر بدترین تشدد
- اپوزیشن لیڈر کی قبائل عمائدین کو معاوضہ نہ ملنے کا مسئلہ اسمبلی میں اٹھانے کی یقین دہانی
اگر ہٹلر کے دور میں سوشل میڈیا ہوتا!
یہ ہٹلر صاحب بھی عجیب ہیں، اتنے عجیب تو وہ تھے ہی کہ خود کو مع مبینہ اہل اور دوسروں کے عیال تباہ کرلیا، مگر یوں بھی عجیب ہیں کہ دنیا ان سے نفرت کرتی ہے لیکن ان کا تذکرہ بھی ہوتا رہتا ہے، ان سے نفرت کرنے والوں کے ساتھ ایسوں کی بھی کمی نہیں جو فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم دیکھ کر کہہ اُٹھتے ہیں ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔‘‘
حال ہی میں موصوف کا نامِ نامی مشہورِزمانہ والٹ ڈزنی کمپنی کے سی ای او بوب ایگر کی زبان پر آیا ہے، جو کہتے ہیں ’’ایڈولف ہٹلر سوشل میڈیا سے محبت کرتا، کیوں کہ یہ اُس کے انتہاپسندانہ افکار پھیلانے کا ایک ذریعہ بنتا۔‘‘
ذرا سوچیے، ہٹلر کے دور میں سوشل میڈیا یا سوشل میڈیا کے دور میں ہٹلر ہوتا تو کیا ہوتا!
ہٹلر کے حامی فیس بُک پر اس قسم کی پوسٹس کر رہے ہوتے ’’ہم نہیں ہمارے بعد ۔۔۔ایڈولف ایڈولف۔۔۔جب آپ اس پوسٹ کو شیئر کریں گے تو شیطان آپ کو روکے گا۔‘‘ نازی پارٹی کے ارکان ہٹلر کی ایسی تصویریں ٹوئٹر اور فیس بک پر سامنے لاتے کے دیکھنے والوں پر رقت طاری ہوجاتی، ہم جیسے حساس لوگ تو دھاڑیں مار کر رونے لگتے۔ کسی تصویر میں ہٹلر صاحب فٹ پاتھ پر سوتے نظر آتے تو کسی میں اُن کے کوٹ کا سوراخ ان کی دیانت داری کا ثبوت پیش کررہا ہوتا۔ جرمنوں کو انگریزوں یا فرانسیسیوں کے خلاف اُکسانے کے لیے ’’جاگ جرمن جاگ، تیری پگھ نوں لگ گیا داغ‘‘ جیسے نعرے سماجی میڈیا کی زینت بن رہے ہوتے۔
ہٹلر کے دور میں جرمن منہگائی پر بلبلا اُٹھتے تو اُس کے طرف داروں کی پوسٹس کچھ یوں ہوتیں،’’منہگائی پر واویلا کیوں؟ چور لٹیرے حکم رانوں سے عوام کا پیسہ بچانے کا طریقہ یہی ہے کہ عوام کے پاس کَکھ نہ رہے۔‘‘ ہٹلر کے جیالے، متوالے اور کھلاڑی اُسے امن کا سفیر قرار دیتے ہوئے بھی نہ شرماتے اور سماجی ویب سائٹس پر یہ کہتے نظر آتے،’’قوم کے عظیم قائد محترم ایڈولف ہٹلر جنگ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
اسی لیے وہ اپنے ہر مخالف کو مٹادینا چاہتے ہیں تاکہ جنگ کا کوئی امکان نہ رہے۔‘‘ نازی افواج کی روس پر حملے میں بدترین ناکامی اور تباہی پر اس قسم کے ٹوئٹس دیکھنے کو ملتے،’’واہ ہمارے قائد کی دانش، فوجیوں کی تعداد گھٹا کر دفاعی اخراجات کم کرنے کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا۔‘‘
معاملہ صرف ستائش تک نہ رہتا، ہٹلر پر تنقید کرنے والے کو اس کے چاہنے والے سوشل میڈیا پر ہر گالی سے نواز رہے ہوتے۔ نازی حکومت سے متعلق منفی خبریں دینے والے صحافی دشمنوں کے ایجنٹ اور غدار کے القاب پارہے ہوتے۔ بات صرف گالیوں اور الزامات تک نہ رہتی، بلکہ فیس بُک کی پوسٹ گیس چیمبر کا ہوسٹ بنادیتی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔