- سعودی ولی عہد کا رواں ماہ دورۂ پاکستان کا امکان
- سیاسی بیانات پر پابندی کیخلاف عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر
- ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کیلئے قومی ٹیم کی نئی کِٹ کی رونمائی
- نازک حصے پر کرکٹ کی گیند لگنے سے 11 سالہ لڑکا ہلاک
- کے پی وزرا کو کرایے کی مد میں 2 لاکھ روپے ماہانہ کرایہ دینے کی منظوری
- چینی صدر کا 5 سال بعد یورپی ممالک کا دورہ؛ شراکت داری کی نئی صف بندی
- ججز کا ڈیٹا لیک کرنے والے سرکاری اہلکاروں کیخلاف مقدمہ اندراج کی درخواست دائر
- کراچی میں ہر قسم کی پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا فیصلہ
- سندھ ؛ رواں مالی سال کے 10 ماہ میں ترقیاتی بجٹ کا 34 فیصد خرچ ہوسکا
- پنجاب کے اسکولوں میں 16 مئی کو اسٹوڈنٹس کونسل انتخابات کا اعلان
- حکومت کا سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے عبوری فیصلے پر تحفظات کا اظہار
- طعنوں سے تنگ آکر ماں نے گونگے بیٹے کو مگرمچھوں کی نہر میں پھینک دیا
- سندھ میں آم کے باغات میں بیماری پھیل گئی
- امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے پی ٹی آئی قیادت کی ملاقات، قانون کی حکمرانی پر گفتگو
- کراچی میں اسٹریٹ کرائم کیلیے آن لائن اسلحہ فراہم کرنے والا گینگ گرفتار
- کراچی میں شہریوں کے تشدد سے 2 ڈکیت ہلاک، ایک شدید زخمی
- صدر ممکت سرکاری دورے پر کوئٹہ پہنچ گئے
- عوامی مقامات پر لگے چارجنگ اسٹیشنز سے ہوشیار رہیں
- روزمرہ معمولات میں تنہائی کے چند لمحات ذہنی صحت کیلئے ضروری
- برازیلین سپرمین کی سوشل میڈیا پر دھوم
اگر ہٹلر کے دور میں سوشل میڈیا ہوتا!
یہ ہٹلر صاحب بھی عجیب ہیں، اتنے عجیب تو وہ تھے ہی کہ خود کو مع مبینہ اہل اور دوسروں کے عیال تباہ کرلیا، مگر یوں بھی عجیب ہیں کہ دنیا ان سے نفرت کرتی ہے لیکن ان کا تذکرہ بھی ہوتا رہتا ہے، ان سے نفرت کرنے والوں کے ساتھ ایسوں کی بھی کمی نہیں جو فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم دیکھ کر کہہ اُٹھتے ہیں ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔‘‘
حال ہی میں موصوف کا نامِ نامی مشہورِزمانہ والٹ ڈزنی کمپنی کے سی ای او بوب ایگر کی زبان پر آیا ہے، جو کہتے ہیں ’’ایڈولف ہٹلر سوشل میڈیا سے محبت کرتا، کیوں کہ یہ اُس کے انتہاپسندانہ افکار پھیلانے کا ایک ذریعہ بنتا۔‘‘
ذرا سوچیے، ہٹلر کے دور میں سوشل میڈیا یا سوشل میڈیا کے دور میں ہٹلر ہوتا تو کیا ہوتا!
ہٹلر کے حامی فیس بُک پر اس قسم کی پوسٹس کر رہے ہوتے ’’ہم نہیں ہمارے بعد ۔۔۔ایڈولف ایڈولف۔۔۔جب آپ اس پوسٹ کو شیئر کریں گے تو شیطان آپ کو روکے گا۔‘‘ نازی پارٹی کے ارکان ہٹلر کی ایسی تصویریں ٹوئٹر اور فیس بک پر سامنے لاتے کے دیکھنے والوں پر رقت طاری ہوجاتی، ہم جیسے حساس لوگ تو دھاڑیں مار کر رونے لگتے۔ کسی تصویر میں ہٹلر صاحب فٹ پاتھ پر سوتے نظر آتے تو کسی میں اُن کے کوٹ کا سوراخ ان کی دیانت داری کا ثبوت پیش کررہا ہوتا۔ جرمنوں کو انگریزوں یا فرانسیسیوں کے خلاف اُکسانے کے لیے ’’جاگ جرمن جاگ، تیری پگھ نوں لگ گیا داغ‘‘ جیسے نعرے سماجی میڈیا کی زینت بن رہے ہوتے۔
ہٹلر کے دور میں جرمن منہگائی پر بلبلا اُٹھتے تو اُس کے طرف داروں کی پوسٹس کچھ یوں ہوتیں،’’منہگائی پر واویلا کیوں؟ چور لٹیرے حکم رانوں سے عوام کا پیسہ بچانے کا طریقہ یہی ہے کہ عوام کے پاس کَکھ نہ رہے۔‘‘ ہٹلر کے جیالے، متوالے اور کھلاڑی اُسے امن کا سفیر قرار دیتے ہوئے بھی نہ شرماتے اور سماجی ویب سائٹس پر یہ کہتے نظر آتے،’’قوم کے عظیم قائد محترم ایڈولف ہٹلر جنگ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
اسی لیے وہ اپنے ہر مخالف کو مٹادینا چاہتے ہیں تاکہ جنگ کا کوئی امکان نہ رہے۔‘‘ نازی افواج کی روس پر حملے میں بدترین ناکامی اور تباہی پر اس قسم کے ٹوئٹس دیکھنے کو ملتے،’’واہ ہمارے قائد کی دانش، فوجیوں کی تعداد گھٹا کر دفاعی اخراجات کم کرنے کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا۔‘‘
معاملہ صرف ستائش تک نہ رہتا، ہٹلر پر تنقید کرنے والے کو اس کے چاہنے والے سوشل میڈیا پر ہر گالی سے نواز رہے ہوتے۔ نازی حکومت سے متعلق منفی خبریں دینے والے صحافی دشمنوں کے ایجنٹ اور غدار کے القاب پارہے ہوتے۔ بات صرف گالیوں اور الزامات تک نہ رہتی، بلکہ فیس بُک کی پوسٹ گیس چیمبر کا ہوسٹ بنادیتی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔