قوم مسیحا کی تلاش میں ہے

نجمہ عالم  جمعـء 14 جون 2019
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

بیرون ملک بارہ ارب ڈالرز کے اثاثوں کا پتا چلا لیا۔ پاکستانیوں کے 26 ممالک سے ڈیڑھ لاکھ بینک اکاؤنٹس کا ڈیٹا موصول ہوچکا ہے۔ یہ انکشاف وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے ایک پریس کانفرنس میں فرمایا ہے۔ جب کہ ایسے جانے کتنے ارب ڈالرز اور اثاثوں کا پتا تو بہت پہلے لگ چکا ہے۔

موجودہ حکومت کو اول روز بلکہ اقتدار میں آنے سے قبل ہی لوٹی ہوئی ملکی دولت کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا اور بڑے وثوق سے اقتدار سنبھالتے ہی یہ ساری دولت واپس لانے کے دعوے بھی ہوچکے تھے اور خوش فہمی یہ تھی کہ ملک میں اتنی دولت آئے گی کہ ملک کے بچے سونے کی گیند سے کھیلتے پھریں گے، موجودہ حکمرانوں کے علاوہ باقی تمام سیاستدان چور، ڈاکو اور لٹیرے پس زنداں ہوں گے اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھے گا۔ ملکی تقدیر ایسے بدلے گی کہ لوگ حیران رہ جائیں گے ۔

یہ انکشاف ذرا بھی تو نیا نہیں۔ اتنی دولت کا پتا چلا لینا اور بات ہے اور اس کو واپس لانا اور بات، ایسے انکشافات سے ملکی معاشی صورتحال پر کیا فرق پڑا؟ بلکہ پہلے کے مقابلے میں اور بھی منفی صورتحال سامنے آئی ہے بقول شخصے سوائے ہوا کے ہر چیز پر ٹیکس لگ چکا ہے، مہنگائی ملکی تاریخ کی انتہائی بلندی پر پرواز کر رہی ہے۔ عوام کو ریلیف دینے اور لٹیروں کے احتساب کا بڑا شور تھا اور ہے مگر کئی لٹیروں کو مسلسل چھوٹ (ضمانت) دے کر وقت ضایع کیا گیا، جو ملک کو اتنی بری طرح لوٹ چکے تھے (بقول موجودہ حکمران) کہ ملک کا ہر مسئلہ صرف اس لوٹ مار کے باعث ہی حل نہیں ہو پا رہا تو ان کے مقدمات پر تو خصوصی توجہ دے کر چند ماہ میں ان سے لوٹی ہوئی دولت نکلوانی چاہیے تھی۔ وہ تو ایئرکنڈیشن گاڑیوں میں عدالت تشریف لاتے ہیں تاریخ آگے بڑھتی جاتی ہے مزید کئی کئی دنوں کی ضمانت حاصل کرکے واپس اپنے عشرت کدوں میں بیٹھ کر ملک و قوم کے خلاف بحالی جمہوریت کے نام پر سازشیں فرماتے رہتے ہیں۔

گرمی ہو، بجلی غائب ہو، مہنگائی کے تھپیڑے چل رہے ہوں، پانی کی قلت ہو، ان کی صحت اور آرام و آسائش پر کیا فرق پڑتا ہے؟ اس وی آئی پی کلچر جس کے ختم کرنے کا بڑا شور تھا کو تو کیا ختم ہونا تھا بلکہ عوام کو حشرات الارض کی بدترین قسم میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ ملک کو لوٹ کر برباد کرنے والے لوٹی ہوئی دولت پر آج اعلیٰ ترین طرز زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اس شدید گرمی میں کھلے آسمان تلے مزدوری کرنے والا ایک وقت پیٹ بھر کر کھانے سے بھی محروم ہے جب کہ طبقہ اعلیٰ کے یہاں انواع و اقسام کے کھانے ہی نہیں ہر قسم کے مشروبات کی کمی نہیں۔ سرد خواب گاہ میں عیش کرتے دولت مند کیا اندازہ کرسکتے ہیں ان حالات کا کہ چلچلاتی دھوپ میں محنت مزدوری کے بعد نہ کھانا میسر ہو اور نہ پانی۔ پورے رمضان عام آدمی مہنگائی کے گرم تھپیڑوں کے باوجود بوند بوند پانی کو ترستے رہے، اگر ذرا سا بھی درد دل ہو باالفاظ دیگر انسانیت ہو تو چشم تصور سے دیکھ کر ہی اس صورتحال پر انسان کو غش آجائے کہ بھوک و پیاس میں کس طرح محنت و مشقت کرکے ملک کا پہیہ چلا رہے ہیں اور یہ خود ساختہ معززین، مراعات یافتہ ان کے خون پسینے کی کمائی پر عیش کر رہے ہیں، مقام عبرت ہے کہ دور جہالت کے لرزہ خیز مظالم بھی اس وحشت کے سامنے ماند پڑ جائیں۔ یا اللہ یہ تیرے محنت کش بندے کب تک اس صورتحال سے دوچار رہیں گے۔

ملک میں سیاسی، معاشی، طبی، تعلیمی، معاشرتی اور مذہبی کوئی ایک پہلو سے صورتحال اطمینان بخش نظر نہیں آتی، ہر فرد خود غرضی، خود فریبی اور مطلب پرستی و خود پسندی میں مبتلا ہے۔ کوئی بھی تو اپنے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچنے پر تیار نہیں۔ یہاں ہر فرد سے مراد سیاسی، مذہبی، معاشرتی و معاشی رہنما ہیں۔ عام افراد تو ان چند دانشوروں کی منفی دانش کا شکار ہیں۔ جو جتنے بڑے عہدے پر براجمان ہے اللہ تعالیٰ نے جس کو جتنی عقل دی ہے وہ اس کو دوسروں کے خلاف اور اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے۔ عقل و دانش جیسی نعمت عظمیٰ کا منفی استعمال کفران نعمت کے سوا اور کیا ہے؟ معاذ اللہ دین اسلام کا حلیہ مسخ کرنے کے ذمے دار ٹی وی شوز میں بڑا اسلامی مساوات، مذہبی رواداری پر پراثر و دل فریب لیکچر دیتے ہیں، مگر جبہ و دستار پر ہی نظر ڈال لیجیے کس قدر اعلیٰ اور معیاری ہوتے ہیں چمکتی دستار اور کپڑوں کی شعاعیں منعکس کرتی شیروانی یا عبا و قبا پھر ہر شو میں مختلف رنگ و انداز کی۔

گفتگو سادگی و انکساری ہر انداز نمائشی و متکبرانہ بانی اسلامؐ اور ان کے طرز حیات میں کوئی مناسبت؟ ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ اب ذرا سیاستدانوں کو دیکھیے اپنے علاوہ انھیں ہر شخص کم عقل، کم ظرف، غدار اور نااہل لگے۔ مگر ان لائق و فائق، اعلیٰ ظرف حضرات کا انداز بیاں، طرز گفتگو الامان الحفیظ۔ جو سیاسی زباں و بیاں ہماری سیاست میں حکمراں جماعت نے متعارف کرایا ہے اس سے متاثر ہوکر مخالفین حکمران کے لیے ویسی ہی زبان استعمال کر رہے ہیں ، حکمراں جماعت کے ترجمان اپنے مخالفین کی نجی زندگی پر سخت انداز سے گفتگو کے فن میں ماہر ہیں۔

یوں تو ایک سے بڑھ کر ایک ہے مگر یک فردی پارٹی کے واحد لیڈر و کارکن اور موجودہ حکومت کے ایک وزیر ان میں سرفہرست ہیں وہ کسی بھی مخالف کے بارے میں مہذب اور باوقار گفتگو کو شاید جرم قرار دیتے ہیں۔ غرض جو انداز بیاں سیاست میں رائج ہو رہا ہے کیا وہ کسی مہذب، باوقار قوم کو زیب دیتا ہے؟ پھر یہ سب چھوڑیے تہذیب، روایات، وقار، شان، عزت سب کو ایک طرف رکھیے، کیا عالمی سطح پر خود کو منوانے یا ملک چلانے کے لیے یہ صورتحال قابل توجہ ہے؟ آخر اس طرح ہم ملک و قوم کی کون سی خدمت انجام دے رہے ہیں؟ اپنی آنے والی نسل کو کیا تربیت دے رہے ہیں؟ انھیں کیسا طرز حیات مہیا کر رہے ہیں؟ کیا 22 کروڑ میں سے کسی کے ذہن میں ایسے سوالات ہلچل نہیں مچاتے؟

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تمام رہنما ہر دن کو زندگی کے آخری دن کے طور پر بسر کر رہے ہیں کہ جو کچھ سمیٹنا ہے آج سمیٹ لو کل کس نے دیکھا ہے وہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کے قائل ہیں اگلی نسل کے بارے میں تو کیا وہ تو خود اپنے آنیوالے کل تک کے بارے میں سوچنے کے روادار نہیں۔ نسل نو تو بعد کی بات ہے وہ تو اپنے برابر کھڑے اپنے ہی بھائی کے منہ سے نوالہ چھیننے کو تیار ہیں۔

دنیا میں اور کئی جگہ برائیاں ہیں مگر ان کی کوئی حد تو ہوگی، ہمارے بگاڑ کی تو کوئی حد ہی نہیں۔ واضح ہو کہ یہ بگاڑ اعلیٰ سطح پر خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے، معاشرے کے ادنیٰ سطح کے افراد کو تو جبراً اس بگاڑ میں ملوث کیا گیا ہے جب کہ ان کے بگاڑنے کی حقیقی وجوہات معاشرے میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں (جیسے جعلی اکاؤنٹس کے سلسلے میں گمنام و نادار افراد کو طبقہ اعلیٰ نے استعمال کیا) مگر دوسروں کی محنت پر عیش کرنیوالے بلا کسی جدوجہد کے پورے معاشرتی وسائل پر قابض ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک کو بدترین حالات کے بعد مسیحا مل گئے، مگر ہمارے نصیب جانے کب جاگیں گے۔ ہمیں کوئی مسیحا ملے گا بھی یا نہیں؟ کپتان کو بھی تو ہم نے مسیحا ہی سمجھا تھا، معلوم نہ تھا کہ ہمارا ستارہ ابھی گردش سے نہیں نکلا۔ جن جن باتوں پر کپتان کو سب سے زیادہ اعتراض تھا جو بڑے بڑے دعوے وہ بے دھڑک فرماتے تھے ان سب کا منفی رخ ہم دیکھ چکے۔ تمام بے ایمان، لٹیروں، آمروں کے ادوار سے بڑھ کر بدترین دور سے ہم اس دور مسیحائی میں گزر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور بات مزید آگے نہ بڑھے۔اب بڑے بڑوں کے (اپنے اپنے وقت کے) پنجہ احتساب میں آنے سے احتساب سب کے لینے کی کچھ صورتحال تو واضح ہوئی ہے، وہ بھی ملک کے ان اداروں کے باعث جو ملک و قوم سے واقعی وفادار ہیں، ملک کو قائم، خودمختار اور ترقی یافتہ دیکھنے کے متمنی ہیں، ورنہ حکمران تو عوام کا گلہ دبانے، مقروض کرنے ایک بار پھر غلامی میں دھکیلنے، غیروں کو ملکی معاملات میں مداخلت کی کھلی چھٹی دینے کے علاوہ اور کچھ کرتے نظر نہیں آرہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔