چھ دن میں کرونا وائرس اسپتال تعمیر

سوفی ولیمز  جمعرات 30 جنوری 2020
چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق نئے اسپتال میں 1000 بستروں کا انتظام ہو گا۔ فوٹو: فائل

چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق نئے اسپتال میں 1000 بستروں کا انتظام ہو گا۔ فوٹو: فائل

چینی شہر ووہان ان دنوں خطرناک کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہے۔ شہر میں وائرس سے نمٹنے کے لیے چھ دن میں اسپتال بنانے کا کام زور شور سے جاری ہے تاکہ بروقت متاثرین کا علاج کیا جا سکے۔

چین میں اب تک کورونا وائرس کے 830 کیسز سامنے آچکے ہیں اور ملک بھر میں 41 افراد کورونا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ چین کے 110 لاکھ آبادی والے شہر ووہان سے ہی اس خطرناک وائرس کا پھیلنا شروع ہوا تھا۔

ووہان کے اسپتالوں میں فی الحال صورت حال خوفناک ہے۔ مریضوں کی بھیڑ ہے اور ادویات کی دکانوں پر اسٹاک ختم ہو چکا ہے لیکن ادویات کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق نئے اسپتال میں 1000 بستروں کا انتظام ہو گا۔

چین کے سرکاری میڈیا کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسپتال کے لیے25  ہزار مربع میٹر علاقے میں کھدائی کا کام شروع ہو چکا ہے۔ اسی طرح سنہ 2003 میں چین نے بیجنگ میں سارس وائرس سے نمٹنے کے لیے ایک اسپتال بنایا تھا۔

ہارورڈ میڈیکل سکول میں گلوبل ہیلتھ اینڈ سوشل میڈیسن پڑھانے والی یوان کاؤفمن کا کہنا ہے کہ ’یہ اسپتال ایک خاص وبا کے پھوٹنے کے باعث بنایا جا رہا ہے اور اس میں کورونا وائرس کے متاثرین کا ہی علاج کیا جائے گا۔ اسی لیے یہاں سخت سکیورٹی انتظامات بھی ہوں گے۔‘

کیا چھ روز میں اسپتال بن سکے گا؟

کونسل آف فارن رلیشنز میں گلوبل ہیلتھ کے سینیئر فیلو یانجونگ ہوانگ نے بتایا کہ ’بڑے سے بڑے منصوبے کو جلد مکمل کرنے میں چین کا ریکارڈ رہا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ 2003 میں بھی بیجنگ میں سات دنوں کے اندر اسپتال بنایا گیا تھا اور اب شاید اسی ریکارڈ کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بیجنگ کے اسپتال کی ہی طرح ووہان کا اسپتال بھی عمارت بنانے کے لیے استعمال ہونے والے ’پری فیبریکیٹیڈ مٹیریئل‘ یعنی ’پہلے سے تیار شدہ اشیا‘ سے بنایا جائے گا۔ ہوانگ کہتے ہیں کہ ’ایسے کاموں میں ملک دفتری طوالتوں اور معاشی رکاوٹوں کو پار کرنے اور ذرائع فراہم کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔‘ ہوانگ کا کہنا ہے کہ اس کام کو وقت پر ختم کرنے کے لیے ملک بھر کے مختلف علاقوں سے انجینیئروں کو بلایا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’انجینیئرنگ کے کام میں چین بہت آگے ہے۔ تیزی سے اونچی عمارتیں بنانے میں اس ملک کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مغربی ممالک کو یہ بات سمجھنے میں مشکل ہو گی لیکن یہ عین ممکن ہے۔ ادویات کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ووہان یا تو دوسرے اسپتالوں سے ادویات لے سکتا ہے یا براہ راست ادویات کے کارخانوں سے منگوا سکتا ہے۔‘

جمعہ کو گلوبل ٹائمز نے تصدیق کی تھی کہ پیپلز لبریشن آرمی کے شعبہ صحت کے 150 کارکنان وہاں پہنچ چکے ہیں حالانکہ اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی ہے کہ اسپتال کی تعمیر مکمل ہو جانے کے بعد بھی وہ یہیں کام کریں گے یا واپس بھیج دیے جائیں گے۔

سارس کی وبا پھوٹنے پر کیا ہوا تھا؟

2003میں سارس کے متاثرین کی مدد کے لیے بیجنگ میں زیوتانگشان اسپتال بنایا گیا تھا۔ اس کی تعمیر کا کام سات دن میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر اس نے دنیا کے کسی بھی اسپتال کی تعمیر مکمل ہونے کے سب سے کم عرصے کا ریکارڈ بنایا تھا۔ چائنا ڈاٹ کوم میں شائع رپورٹ کے مطابق اس اسپتال کو بنانے کے لیے تقریباً 4000 افراد نے دن رات کام کیا تھا۔

اس اسپتال میں ایکس رے کا کیمرا، سی ٹی سکین کا کمرا، آئی سی یو اور لیبارٹری شامل تھے۔ اسپتال کے ہر ایک وارڈ میں ایک باتھ روم تھا۔ اسپتال کی تعمیر کے دو ماہ بعد ملک بھر میں موجود تمام سارس متاثرین کا ساتواں حصہ اس اسپتال میں داخل تھا۔ چین کی میڈیا میں اسے ’طبی تاریخ میں معجزہ‘ قرار دیا گیا تھا۔ یوان کاؤفمن کہتی ہیں کہ ’وزارت صحت نے اسے بنانے کا حکم دیا تھا اور دیگر اسپتالوں سے نرسوں اور ڈاکٹروں کو وہاں بلایا گیا تھا۔ ان کے پاس متاثرین کی شناخت اور ان کے علاج کے لیے ضروری ہدایات کی لسٹ تھی۔‘

کاؤفمن کہتی ہیں کہ ’میرے لیے یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ فی الحال یہ تمام اخراجات ووہان کی حکومت کے اوپر آنے والے ہیں۔ لیکن اس وقت انھیں اسے ہی سب سے زیادہ ترجیح دینی ہے۔‘ ہوانگ بتاتے ہیں کہ سارس کی وبا کے ختم ہونے کے بعد بیجنگ کے اسپتال کو خالی کر دیا گیا تھا۔

(بشکریہ بی بی سی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔