- پی ایس ایل کی سابق چیمپئین ٹیم نے پشاور میں میچز کروانے کا مطالبہ کردیا
- پاکستان کے ڈیری سیکٹر کو مسلسل چیلنجوں کا سامنا، ماہرین
- کھانسی جان لیوا کب ثابت ہوتی ہے؟
- ہر مشہور شخص لیڈر نہیں بن سکتا
- بغیر پروں کے پُر تعیش طیارے کا ڈیزائن پیش
- ازدواجی زندگی نے مجھے سیلز بزنس میں ماہر بنا دیا، امریکی شہری
- عامر 15سال بعد ٹی20 ورلڈکپ ٹائٹل کی تاریخ دہرانے کے خواہاں
- غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری رہی تو جنگ بندی معاہدہ نہیں ہوگا، حماس
- اسٹیل ٹاؤن میں ڈکیتی مزاحمت پر شہری کا قتل معمہ بن گیا
- لاہور؛ ضلعی انتظامیہ اور تندور مالکان کے مذاکرات کامیاب، ہڑتال موخر
- وزیراعظم کا 9 مئی کو شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تقریب کے انعقاد کا فیصلہ
- موبائل سموں کی بندش کے معاملے پر موبائل کمپنیز اور ایف بی آر میں ڈیڈ لاک
- 25 ارب کے ٹریک اینڈ ٹریس ٹیکس سسٹم کی ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین ہوگیا
- وزیر داخلہ کا ملتان کچہری چوک نادرا سینٹر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان
- بلوچستان کے مستقبل پر تمام سیاسی قوتوں سے بات چیت کرینگے، آصف زرداری
- وزیراعظم کا یو اے ای کے صدر سے ٹیلیفونک رابطہ، جلد ملاقات پر اتفاق
- انفرااسٹرکچر اور اساتذہ کی کمی کالجوں میں چار سالہ پروگرام میں رکاوٹ ہے، وائس چانسلرز
- توشہ خانہ کیس کی نئی انکوائری کیخلاف عمران خان اور بشری بی بی کی درخواستیں سماعت کیلیے مقرر
- فاسٹ ٹریک پاسپورٹ بنوانے کی فیس میں اضافہ
- پیوٹن نے مزید 6 سال کیلئے روس کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا
مستقل درد، موڈ، سوچ اور خیالات بدل سکتا ہے
آسٹریلیا: ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مسلسل اور دیرینہ تکلیف ہمارے احساسات اور جذبات کو یکسراندازمیں تبدیل کرسکتی ہے۔
ہماری پیشانی کے عقب میں موجود دماغی حصہ خوشی اور تکلیف کا احساس دلاتا ہے۔ لیکن یہی درد جب سوہانِ روح بن کر برقرار رہے تو اس سے ہماری بے چینی بڑھتی ہے ، ہم ڈپریشن کے شکار ہوسکتے ہیں اور خود ہماری شخصیت کے کئی پہلو بدلنے لگتے ہیں۔
نیورولوجیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آسٹریلیا کی پروفیسر سلیویا گسٹِن کے مطابق ’ درد بڑھتا رہے اور مسلسل ہو تو ہمارے جذبات اور احساسات تبدیل ہونے لگتے ہیں۔‘ اس ضمن میں انہوں نے بہت دلچسپ تحقیق کی ہے ۔ انہوں نے مسلسل تکلیف جھیلنے والے اور اس سے محفوظ رضاکاروں کے دماغ کو دیکھا ہے اور نوٹ کیا ہے کہ درد آخر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ایک خاص کیمیکل ’گیما امائنو بیوٹائرک ایسڈ‘ یا گابا، پورے اعصابی نظام میں سگنل کے نظام پر نظر رکھتا ہے۔اس کا دوسرا کام یہ ہوتا ہے کہ یہ ہمارے جذبات اور احساسات کو قابو میں رکھتے ہوئے ہمیں تناؤ کا شکار نہیں ہونے دیتا۔
لیکن یہ نئی تحقیق پہلی مرتبہ بتاتی ہے کہ کس طرح دیرینہ تکلیف گابا کیمیکل کی پیداوار متاثر کرکے ان کے احساسات کو تبدیل کردیتی ہے۔ اس کے ثبوت چوہوں کے تجربات سے بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ انہیں درد دیا گیا تو کیمیکل کی پیداوار کم ہوئی لیکن انسانوں میں پہلی مرتبہ یہ ثبوت سامنے آئے ہیں۔
جب 48 رضاکاروں کو دیکھا گیا تو وہ درد سہہ رہے تھے اور یوں ان کے دماغ میں گابا کی پیداوار میں نمایاں فرق دیکھا گیا۔ اس سے دماغ کے ان حصوں پر اثر پڑتا ہے جو جذبات اور احساسات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ کیفیت بڑھ کر مستقل طور پر مزاج کا حصہ بن سکتی ہے اور تکلیف میں مبتلا کسی شخص کے مزاج کو طویل عرصے کے لیے تبدیل کرسکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔