اومی کرون اور انسانی صحت کو لاحق خطرات

ایڈیٹوریل  پير 29 نومبر 2021
لوگوں کو اس بارے میں آگاہی دینی شروع کر دی ہے اس کے علاوہ ڈاکٹروں کوبھی اس بارے میں تیار رہنے کی ہدایات کردی گئی ہیں۔ فوٹو : فائل

لوگوں کو اس بارے میں آگاہی دینی شروع کر دی ہے اس کے علاوہ ڈاکٹروں کوبھی اس بارے میں تیار رہنے کی ہدایات کردی گئی ہیں۔ فوٹو : فائل

کورونا وائرس کے نئے ’اومی کرون‘ ویرینٹ نے دنیا بھر میں کھلبلی مچادی ہے ، ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک نے اس نئے خطرے سے آگاہ ہونے کے بعد ہنگامی طور پرحفاظتی اقدامات شروع کردیے ہیں۔

لوگوں کو اس بارے میں آگاہی دینی شروع کر دی ہے اس کے علاوہ ڈاکٹروں کو بھی اس بارے میں تیار رہنے کی ہدایات کر دی گئی ہیں۔اس خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکا، روس، یورپ اور امیر خلیجی ممالک نے افریقی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں تاکہ یہ نیا وائرس ان کے ملکوں میں نہ پھیل سکے۔

اومی کرون وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر یورپی یونین نے افریقی ریجن کے ساتھ تمام سفری رابطے منقطع کر دیے ہیں۔پاکستان نے بھی نئے صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ہانگ کانگ اور 6افریقی ممالک کو ’’کیٹگری سی‘‘ میں شامل کرتے ہوئے ان پر مکمل سفری پابندیاں عائد کر دیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر ( این سی او سی ) کے اعلامیے کے مطابق ہانگ کانگ، جنوبی افریقہ، موزمبیق، نمیبیا، لیسوتھو، بوٹسوانا اور ایسوا تنی (Eswatini) پر سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔البتہ ان ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کی سہولت کے لیے5 دسمبر تک سفر کی اجازت ہے لیکن ان ممالک سے پاکستان واپس آنے والے مسافروں پر صحت ٹیسٹنگ پروٹوکول لاگو رہیں گے۔

ان تمام 7ممالک کو کیٹگری سی میں شامل کیا گیا ہے۔ این سی او سی کا کہنا ہے کہ ان ممالک سے مسافروں کی براہ راست اور بالواسطہ آمد پر فوری پابندی ہوگی اور ایمرجنسی میں سفرکرنے والے پاکستانیوں کو سفر کی اجازت لینا ہوگی۔ پاکستانی مسافروں کو ویکسینیشن سرٹیفکیٹ ایئر پورٹ پر دکھانا ہوگا۔ پاکستانی مسافروںکو 72 گھنٹے پہلے کی منفی پی سی آر رپورٹ دکھانا ہوگی۔

ایئرپورٹ پر مسافرکا ریپڈ اینٹی جین ٹیسٹ کیا جائے گا۔ ریپڈ اینٹی جین ٹیسٹ منفی آنے والے پاکستانیوں کو پاکستان آمد پر گھر میں 3 دن لازمی قرنطینہ کرنا ہوگا۔ انتظامیہ کی جانب سے آمد کے تیسرے روز آر اے ٹی ٹیسٹ ہوگا۔ ٹیسٹ مثبت آنے پر حکومتی یا متاثرہ فرد کے لیے اپنے خرچ پر 10 دن کا لازمی قرنطینہ اختیار کرنا ہوگا اور قرنطینہ کے 10 ویں روز پی سی آر ٹیسٹ کیا جائے گا۔

این سی او سی کی جانب سے ایوی ایشن ڈویژن ایئرپورٹ مینجمنٹ اور اے ایس ایف سے کہا گیا ہے کہ وہ ان ممالک میں بلواسطہ سفر کرنے والے مسافروں کی اسکریننگ کے لیے لائحہ عمل وضع کریں اور 29نومبر تک متعلقہ حکام کو آگاہ کریں ۔

وفاقی وزیر و چیئرمین این سی او سی اسد عمر نے ٹویٹ میں کہا کہ نئی قسم کے ویرینٹ کے ابھرنے سے 12 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تمام اہل شہریوں کو ویکسین لگانے کی ضرورت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں جنوبی افریقہ سے کورونا ویرینٹ کے پھیلاؤ کے سبب تشویش پائی جاتی ہے۔

کورونا کی نئی قسم ’’اومیکرون‘‘ جنوبی افریقا کے ایک صوبے میں دریافت ہوئی ہے جس کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں اوریجنل کورونا وائرس کے مقابلے میں اس قدر تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں کہ کورونا کی اب تک بنائی جانے والی ویکسینز کی مؤثریت 40 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔

یہ اس سے قبل سامنے آنے والے کورونا وائرس ویرینٹ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ اس میں تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت ہے اور ویکسین کا اثر بھی اس پر کم ہوگا۔ کورونا کے باعث پہلے ہی پوری دنیا دو سال سے عذاب بھگت رہی ہے‘ اس بیماری نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی جانیں لی اور لاکھوں اس سے متاثر ہوئے‘ ابھی یہ عذاب چل رہاہے کہ اس کے ساتھ ہی نئے خوفناک وائرس ’اومی کرون‘ نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔

کورونا نے پوری دنیا کے معاشی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ۔ متعدد کمپنیاں اس قابل نہ رہیں کہ اپنے ملازموں کو تنخواہیں ادا کر سکیں جس کے باعث ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو بیروز گاری کا سامناکرنا پڑا۔ کورونا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ڈینگی بخار بھی درد سر بنتا جا رہا ہے اس پر مستزاد یہ کہ اومنی کرون نے نئے مسائل پیدا کرنا شروع کر دیے ہیں۔

کورونا کے باعث فضائی اور ٹرانسپورٹ کمپنیاں ایک عرصے تک معاشی بحران کا سامنا کرتی رہی اور اب بھی اس کے منفی اثرات بھگت رہی ہیں ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں اب نئے سے نئے خطرناک وائرس جنم لیں گے اور بیماریاں پھیلاتے چلے جائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ یہ وائرس کیوں پیدا ہو رہے ہیں اور ان کے مستقل خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ممالک نے ان وائرس کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ کیے تو کچھ بعید نہیں کہ ہر سال نئے سے نئے وائرس جنم لیتے رہیں گے اور انسانیت ان کے ہاتھوں دم توڑتی رہے گی۔

پاکستان میں پہلے ہی کورونا کی وباء نے درمیانے اور نچلے طبقے کی معاشی کمر توڑ رکھی ہے، بہت سے لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جو ملازمت پر برقرار رہے ، ان کی تنخواہیں کم ہوگئیں، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کش فاقوں پر مجبور ہوگئے جب کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری مالی مشکلات کا شکار ہوگئے۔

ادھر ملک میں علاج معالجہ مہنگا ہے، ادویات کی قیمتیں بلند ہیں، جب کسی گھر میں کوئی بیمار اور بھوکا ہو تو پھر گھرانے کے افراد کی سوجھ بوجھ ختم ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ خود کشی کرلیتے ہیں اور کچھ معاشرتی برائیوں کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔

ادویات کی قیمتوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہو چکا ہے اوروہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں، لوگ علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے صحت کی سہولتیں عوام کی رسائی سے دور ہو گئی ہیں۔

پاکستان میں ہیلتھ ایجوکشن کا فقدان ہے ملک کو صحت عامہ کے حوالے سے بے شمار مسائل درپیش ہیں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی اتائیت کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اشیاء خورونوش میں بڑھتی ہوئی خطرناک ملاوٹ سے پاکستان میں ہر سو تیزی سے پھیلنے والے لاتعداد متعدی امراض لمحہ فکریہ ہیں۔

ادویات یا تو جعلی ہیں یا پھر انتہائی ناقص لیکن حکومت کا اس طرف کوئی دھیان نہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، ادویات کی قیمتیں کم کرنے پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ پاکستان میں متعدد بیماریوں کا پھیلاؤ جاری ہے ، اور ان کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ہے۔

ملک میں سالانہ چونسٹھ لاکھ بچے جنم لیتے ہیں، جن میں سے 4لاکھ سے زائد بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں دیکھ پاتے اور یہ ماؤں کی گود میں دم توڑ دیتے ہیں۔ انھی میں سے تقریباً تین لاکھ بچے پہلے ہی مہینے میں دم توڑ جاتے ہیں، پاکستان میں ایک ماہ کی کم عمر ی میں جاں بحق ہونے والے بچوں کا تناسب عالمی معیار سے کہیں زیادہ بلکہ شرمناک حد تک زیادہ ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔

40فیصد بچے پری میچور پیدائش کے باعث جاں بحق ہوتے ہیں۔21 فیصدبرتھ Acphyxya ایکسپسویا اور 18فیصد انفیکشن کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں جب کہ ایک سال سے کم عمر بچوں میں سے 60فیصد تو ان پیدائشی امراض کی وجہ سے دنیا چھوڑ دیتے ہیں جن کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں جب کہ مزید17.7فیصد نمونیا اور 11.3فیصد ڈائریا کے باعث مرتے ہیں۔

بڑی تعداد میں اسہال اور ملیریا سے مرنے والے بچے ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے اسہال اور ملیریا کی بیماریوں پر کوئی کنٹرول نہیں ان دونوں امراض سے مرنے والے بچوں کا تناسب 1لاکھ 30ہزار کے لگ بھگ ہے جو عالمی تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔

پاکستان میں ہر سال 1لاکھ 48ہزار سرطان کے نئے مریض سامنے آتے ہیں، تاہم مریضوں کی اصل تعداد کا کوئی پتہ نہیں اس بارے میں بھی ہمارے پاس جامع اور قابل اعتماد اعداد و شمار کا فقدان ہے۔ طبی آلات کا صحیح طریقے سے جراثیموں سے پاک نہ ہونا، سرنجوں کا دوبارہ استعمال اور گندا پانی اس کی بڑی وجوہات ہیں اور یہی دراصل اس کے انفیکشن کا بڑا سبب ہے۔

بریسٹ کینسر پاکستان میں عام ہے یہ ہر سال 40ہزار خواتین کی جانیں لے لیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت اس کے پھیلاؤ کے بارے میں کئی مرتبہ خبردار کر چکا ہے۔ خطرے کی گھنٹیاں ہمارے ذہنوں میں گونج رہی ہیں۔ سرطان کی ایک قسم اب بچوں کو بھی معاف نہیں کر رہی اور نوجوان بچیاں بھی اس مرض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 10کروڑ خواتین میں سے کم و بیش 1کروڑ خواتین کا اپنی زندگی میں ایک مرتبہ کینسر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے یعنی ہر 10ویں عورت یا بچی کینسر کا شکار بن سکتی ہے چنانچہ کینسر پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس ساری تفصیل کا مقصد ارباب اختیار کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی لاپروائی اور ریاستی اداروں کی افسرشاہی کی نااہلی کے باعث کورونا وائرس کا ہمارے ملک میں پھیلاؤ ہوا، اگر اس وقت بھی حفاظتی اقدامات کیے جاتے تو کورونا وائرس کے بے لگام پھیلاؤ سے بچا جاسکتا تھا، حکمرانوں اور نوکر شاہی کی غفلت اور نااہلی کا خمیازہ اس ملک کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔اب کورونا کی نئی شکل سامنے آچکی ہے،اس بار بھی ہمارے پالیسی سازوں اور ریاستی اہلکاروں نے روایتی نااہلی کا مظاہرہ کیا تو خدا نخواستہ نیا وائرس پاکستان میں پھیل کر رہی سہی معیشت کا دھڑن تختہ کردے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔