بُک شیلف؛ عظیم رزمیہ’War and Peace‘ کا اُردو میں ظہور

غلام محی الدین  اتوار 23 جنوری 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

چی کو وسکی کا تخلیق کردہ ’’1812 Ouerture‘‘ فرانس کے عالمی شہرت یافتہ جرنیل نپولین کی 1812 میں روس پر چڑھائی‘ طوفانی پیش قدمی اور پھر بدترین ہزیمت اُٹھا کر فرار کے تاریخی باب کا موسیقی کی زبان میں عظیم فنکارانہ اظہار ہے۔

پوئتر ایلیچ چی کووسکی یورپ میں فکرو فن کے حوالے سے برپا ہونے والی رومانیت کی تحریک کے عہد میں اُبھرنے والا وہ واحد روسی موسیقار تھا جس کی تخلیقات نے عالمی سطح پر دائمی نقش ثبت کیا۔ چی کووسکی اور عظیم روسی ناول نگار لیوٹالسٹائی ہم عصر ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہوتا کہ ایک سچا فنکار جذبہ حُب الوطنی سے سرشار نہ ہو۔ جہاں ٹالسٹائی نے نپولین کی ناقابل شکست سمجھی جانے والی سپاہ کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دینے کے عظیم کارنامے کو اپنے معرکتہ الاآرا ناؤل ’War and Peace‘ میں فنی شاہکار کے مرتبے پر فائز کردیا۔

اسی طرح چی کووسکی نے اس جنگ کے اُتار چڑھاؤ کو اپنے آرکسٹرا سے اُٹھنے والے تموج میں مجسم کردیا ہے۔ جیسے ٹالسٹائی کے ناؤل War & Pcace  کو پڑھنا زندگی کے اندر ایک اور زندگی جینے کے تجربے جیسا ہے اسی طرح چی کووسکی کے ’’1812 Ouerture‘‘ کو سننا بالکل ایسے ہے جیسے میدان جنگ میں اُڑتا ‘ سنسناتا سیسہ‘ کوندے کی طرح لپکتی تلواروں کی کاٹ‘ رسالے کے طوفانی حملے میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے بلند ہونے والا بے پناہ شور‘ توپ خانے کے گولوں کی بھاری دھمک اور بلند آہنگ ‘ رزمیہ نوبت‘ سب کچھ آپ کے کانوں کے راستے بہتہ ہوا خون میں گُھلتا چلا جاتا ہے۔

کچھ منٹوں پر محیط موسیقی کے اس شاہکار میں سامع میدان کار زار میں طوفانی رفتار سے دھڑکتے دل کے ساتھ حملہ کرنے والے سپاہی کے خود شکار ہوجانے کے بعد پاتال میں ڈوبتی دھڑکنوں تک سے آشنائی حاصل کرلیتا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ چی کو وسکی نے ٹالسٹائی کے فسوںساز قلم سے جنم لینے والے میدان جنگ کے بیانیے سے خود کو سیراب نہ کیا ہو۔

کسی فن کے عظیم تخلیقی اظہار میں ایک عجب خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے ذریعے سے ایک وسیع تر تخلیقی سرگرمی کا آغاز کردیتا ہے۔ اس کی وساطت سے تخلیق در تخلیق کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چی کووسکی نے ایک بعید از قیاس تخلیقی امکان کے بارے میں سوچا‘ یعنی روسی تاریخ میں 1812 کی جنگ کا احوال جسے ٹالسائی نے اُس پورے ماحول کا حصہ ہوتے ہوئے محسوس کیا اور بند میں لکھا‘ موسیقی کے ایک بالکل اجنبی اظہاریئے میں کیسے سمویا جاسکتا ہے۔

عظیم ادبی کارناموں سے جنم لینے والی تخلیقی سرگرمی کا اہم ترین حصہ ان کے دیگر زبانوں میں تراجم ہیں اور ایک کامیاب ترجمہ بھی اپنی زبان‘ معاشرت کی حد تک ایک تخلیق ہی بن جاتا ہے۔ اس ناؤل کے صرف انگریزی زبان میں گیارہ تفصیلی اور دو مختصر ترجمے ہوچکے ہیں۔ اس پر پانچ مرتبہ ٹی وی ڈرامہ سیریلز بنائی گئیں‘ تھیٹر کیا گیا۔ برطانیہ کے پروگریسو راک بینڈ ’Yes‘نے البم نکالا۔ ممتاز روسی کمپوزر سرجئی پروکوفیو نے 1940 کی دہائی میں اوپرا تخلیق کیا اور پھر سب سے بڑھ کر سوویت عہد میں 431 منٹ پر مشتمل فلم ہے جسے سرجئی بنڈار چک نے ڈائریکٹ کیا اور یہ آسکر ایوارڈ کی حقدار قرار پائی۔

ترجمہ بنیادی طور پر تو کسی تحریر یا زبانی اظہار کو ایک سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ہے۔ اس کا ناگزیر وصف کسی اظہاریئے کو دوسری زبان سمجھنے والے کو سمجھا دینا ہے۔ اگر اعداد و شمار ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا مقصود ہے تو یہ پیچیدہ معاملہ نہیں۔ کوئی اطلاع‘ کوئی خبر‘ کوئی رپورٹ یا ہدایت کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ہو تو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اصل زبان میں بات کرنے والے کا جو مدعا تھا وہی مدعا اُس زبان کے جاننے والوں سے بھی حاصل ہوجائے‘ جس زبان میں اسے منتقل کیا گیا ہے۔

لیکن اگر بات ادبی نگارشات کی آجائے تو ترجمہ کرنے کے تقاضے یکسر بدل جاتے ہیں۔ ایک شعر کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا ہو تو ہر دو صورتوں میں ’یعنی چاہے اسے منظوم صورت میں ڈھالا جائے یا پھر نثری اسلوب میں اس کا ترجمہ کیا جائے‘ مقصد تبھی حاصل ہوگا جب مفہوم کے ساتھ وہ احساس بھی دوسری زبان میں منتقل ہوجائے جو اُس شعر کی روح اور جوہر ہے اور یہاں بھی پڑھنے والے پر وہی کیفیت پوری شدت کے ساتھ نہیں تو قابل فہم حد تک طاری ہوجائے۔

اس نوع کا کوئی چیلنج قبول کرنے کے لئے نہ صرف یہ کہ زبانوں کا گہرا علم ہونا ضروری ہے بلکہ مختلف تہذیبوں‘ معاشرتی رویوں‘ ثقافتی اقدار‘ ادبی رجحانات‘ سماجی ترجیحات‘ مذہبی اور روحانی تصورات غرض معمولی سے معمولی تفصیلات سے مکمل آگاہی لازم ہے۔ اس سب کچھ کے بعد بھی جو سب سے اہم وصف درکار ہے وہ یہ ہے کہ ایک زبان کے اندر الفاظ کے ذریعے تخلیق کار نے جذبہ اور احساس کی جو کیفیت پیدا کی ہے‘ ترجمہ نگار کیا دوسری زبان کے قاری کے اندر اس کے اپنے ماحول‘ ثقافت اور سماجی رویوں کے باوصف بالکل اس سے ملتی جلتی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوپایا ہے یا نہیں۔

یہ معاملہ مادی سطح پر قابل فہم اشاریوں سے بالاتر ہے‘ گو کہ اس کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے بھی الفاظ ہی استعمال میں لائے جائیں گے۔ ہماری زبان میں جاننے کے معنوں میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ’سمجھ بوجھ‘۔ اس کے ذریعے مکمل نہیں تو کسی حد تک اس بات کو سمجھنا ممکن ہوجاتا ہے۔

’سمجھ‘ جاننے کی سب سے ابتدائی صورت ہوسکتی ہے اور جب اس کے ساتھ ’’بوجھ‘‘ کا لفظ آتا ہی تو یہ ادراک کی زیادہ گہرائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی کسی چیز کے جاننے کی کی وہ سطح جہاں پر جاننے والا اب خود اس قابل ہے کہ اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال سکے۔ لہٰذا کسی ادبی تخلیق کی دوسری زبان میں منتقلی میں لازم ہے کہ وہ پڑھنے والے کو ’سمجھ‘ کے ساتھ ’’بوجھ‘‘ سے بھی آشنا کردے۔

یہ ترجمے کے درکار معیار کے حوالے سے ایک عمومی تعارف ہے لیکن اگر معاملہ War and Peace جیسے کسی غیر معمولی شاہکار کے ترجمے کا ہو تو اس چیلنج سے نبرد آزما ہونا کئی گنا مشکل اور حساس ہوجاتا ہے۔ ’وار اینڈ پیس‘ کو اُردو میں منتقل کرنے کا کٹھن کام اس دور کے عالم بے بدل شاہد حمید مرحوم نے انجام دیا تھا اور اس شان سے انجام دیا کہ اُردو زبان کے اس ترجمے کو معیار اور تاثیر میں انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں اس ناؤل کے ترجموں کے مقابل لاکھڑا کیا ہے۔

انہوں نے اس کام کے لئے روسی زبان سے بھی شناسائی حاصل کی اور انگریزی زبان میں ہونے والے تراجم میں سے سب سے زیادہ معتبر سمجھے جانے والے Louise اور ان کے شوہر Aylmer Maude کے قلم سے ہونے والے ترجمے کو اپنے ترجمے کی بنیاد بنایا۔ شاہد حمید اس بارے میں خود بتاتے ہیں کہ اکثر ترجمہ نگاروں نے کرداروں کے مسیحی ناموں کے روسی تلفظ کو انگریزی تلفظ میں بدل دیا اور کہیں روسی فوج میں مروج روز مرہ Slangs کو برطانوی فوج میں زیر استعمال ہم معنی جملوں میں بدل دیا جبکہ شاہد حمید نے اُردو ترجمے میں روسی ماحول اور فضاء کو بحال کرنے کا کام بھی انجام دیا ہے۔

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ اصل مقصد تو قاری کو وہ سب کچھ سمجھانا اور محسوس کرانا ہے جو اصل تخلیق کا ہدف ہے لہٰذا ناؤل کی کہانی کے آغاز سے پہلے 52 صفحات پر ناول کو سمجھنے میں آسانی کے لئے رہنما معلومات شامل کی گئی ہیں کیونکہ یہ ایک تاریخی ناؤل ہے تو سب سے پہلے لیوٹالسٹائی کے عہد کے تمام اہم واقعات تاریخ وار بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد سہیل احمد خان کے قلم سے ناؤل اور اس کے ترجمے کا تعارف شامل ہے۔ ترجمے کے کام اور اس میں پیش آنے والی مشکلات کا الگ سے بیان کیا گیا ہے۔

روسی تاریخ‘ مذہب‘ درباری خطابات‘ روسی تقویم اور روسی میں فاصلوں کو ناپنے کے پیمانوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔ پھر عسکریات‘ مذہب‘ موسیقی کے شعبوں میں استعمال ہونے والی اہم اصطلاحیں اور الفاظ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ ناؤل کے اہم کرداروں اور ان کے باہمی تعلق کو الگ سے بیان کیا گیا ہے۔ پھر روسی ناموں کو سمجھنے کے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ اس طویل تہمید کے بعد قاری اس قابل ہوجاتا ہے کہ 1608 صفحات پر پھیلے ہوئے اس عظیم رزمیہ کے ساتھ وقت گزار سکے۔ ترجمے کے اس کارنامے کو اس کتاب کو ہاتھ میں لئے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔

جہاں شاہد حمید مرحوم نے وار اینڈ پیس جیسے بڑے ناول کو اُردو کے قالب میں ڈھال کر اُردو سمجھنے والوں کے لئے غیر معمولی خدمت انجام دی ہے وہیں اس کتاب کو شائع کرنے کا بیڑا ’القا پبلیکشنز‘ نے اُٹھایا اور اسے ’ریڈنگز کلاسیکس‘ (042-35292627) کے سلسلے کے تحت چھاپہ گیا ہے۔

عموماً ہمارے ہاں کتابوں کے اشاعتی معیار کو لے کر تنقید سامنے آنا معمول کی بات ہے لیکن ’جنگ اور امن‘ کے نام سے سامنے آنے والی یہ کتاب معیار میں ناؤل کے تخلیقی قد کاٹھ سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔ اس کا سرورق مہدی نائبی نے اُسی تخلیقی وفور کے ساتھ ڈیزائن کیا ہے جو اس ناؤل کے شایان شان ہو۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اس کا مطالعہ لازم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔