- نماز میں خشوع و خضوع
- تربیت اطفال کے اہم راہ نما اصول و ضوابط
- بڑی عمر میں بال سفید ہونے کے عوامل
- ہائی بلڈ پریشر، وجوہات اور علاج
- متوازن غذا کی اہمیت اور حصول کے ذرائع
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر ای مارکنگ منصوبہ شروع نہیں ہوسکے گا
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر ای مارکنگ منصوبہ ایک بار پھر تعطل کا شکار
- دھمکیوں پر خاموش نہیں ہوں گے، جیل کیلیے بھی تیار ہیں، فضل الرحمان
- ورلڈ لیجنڈز کرکٹ لیگ، پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی ایک مرتبہ پھر مدمقابل
- ٹی 20 ورلڈ کپ: سری لنکا نے اپنی ٹیم کا اعلان کردیا
- الشفا اسپتال سے ایک اور اجتماعی قبر دریافت، 49 ناقابل شناخت لاشیں برآمد
- بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، آسمانی بجلی گرنے سے 74 ہلاکتیں
- اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ؛ پاکستان اور جاپان 11 مئی کو فائنل میں مدمقابل آئیں گے
- سانحہ نو مئی کے خلاف پنجاب اور سندھ اسمبلی میں قرارداد کثرت رائے سے منظور
- کراچی میں نان کی قیمت 17 اور چپاتی کی قیمت 12 روپے مقرر
- اپنے خلاف کرپشن کیس بند کرانے پر فجی کے وزیراعظم کو ایک سال قید
- زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، 14 ارب 45 کروڑ 89 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئے
- دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کیساتھ کام کرنے کیلیے پُرعزم ہیں؛ امریکا
- وسیم جونیئر اور عامر جمال کو ٹیم میں ہونا چاہیے تھا، شاہد آفریدی
- 9 مئی کے ورغلائے لوگوں کو پہلے ہی شک کا فائدہ دے دیا، اصل مجرم کو حساب دینا ہوگا، آرمی چیف
پاکستان، چین اور امریکا تعلقات کی نوعیت
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین سے ذرا پہلے آئی ایم ایف کا پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط کا اجراء جو مہینوں سے رکا ہوا تھا معنی خیز ہے کہ ناراض پاکستان کہیں بہت زیادہ ہی چین کی طرف نہ جھک جائے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دورہ چین کے بعد پاک امریکا تعلقات کی اصل صورت حال واضح ہوگی کہ یہ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ امریکا نے پچھلے 10 سالوں میں برصغیر کے حوالے سے ایک بہت بڑی پالیسی شفٹ لی کہ اس نے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا جب کہ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کی آنکھ کا تارا رہا۔
اس سے پہلے اتنی زیادہ اہمیت پاکستان کو کبھی نہیں ملی۔ جب تک افغانستان میں امریکی مفاد رہا، پاکستان کی اہمیت رہی۔ ریمنڈ ڈیوس واقعہ ہو یا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں گہرے شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔
یہاں تک کہ گزشتہ سال 15اگست کو کابل سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات شدید سرد مہری کا شکار ہو گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے پاس وزیر اعظم پاکستان کو ٹیلیفون کرنے کے لیے وقت نہیں۔ چار سال ہونے کو آ رہے ہیں، پاکستان میں امریکی سفیر کا تعین نہ ہو سکا۔ باوجود اس کے کہ نامزد امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے نام کا اعلان ہو چکا ہے۔
امریکا کو پاکستان سے بہت سی شکایات ہیں ان میں سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں امریکی شکست کا ذمے دار ہے۔ دوسری بڑی شکایت چین کا روڈ اینڈ بیلٹ منصوبہ ہے جس میں پاکستان سی پیک کے ذریعے شامل ہے۔ امریکا پاکستان سے اس بات پر سخت ناراض ہے کہ پاکستان چین کا اثرو رسوخ سینٹرل ایشیا اور مشرق وسطی میں تیزی سے بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔
اگر سچ پوچھا جائے تو اصل شکایت ہی یہی ہے۔ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے توڑ کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایک متبادل منصوبہ بھی پیش کیا جس میں بہت کم ملکوں نے دلچسپی لی۔ امریکا نے پاکستان کی کمزور معاشی حالت کے پیش نظر اپنے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں کو استعمال کیا تا کہ پاکستان کو چین سے دور کیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف کی صرف ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو گزشتہ چند ماہ میں کھربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
پاکستان میں طاقتور امریکی لابی جو پاکستان سے زیادہ امریکا کی وفادار ہے اس لابی کے لوگوں نے موجودہ حکومت کے آتے ہی امریکی خوشنودگی کے لیے سی پیک کے حوالے سے ایسے بیانات دیے جس سے چین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ دورہ چین سے پہلے نوشکی پنجگور میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دہشت گردی کوئی اتفاق نہیں۔ اس کی ٹائمنگ پر غور فرمائیں۔ سی پیک کی دشمن دہشت گرد قوتیں پھر متحرک ہو کر اس اہم ترین دورے پر چین کو کیا پیغام بھیج رہی ہیں۔
امریکا ہو یا بھارت دونوں ہی سی پیک کے بدترین مخالف ہیں۔ جب پاکستان کی طرف سے فوجی اڈے دینے کے حوالے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کا بیان دیا گیا ، تو اس سے امریکی انا کو شدید ٹھیس پہنچی۔ چنانچہ ڈیموکریسی سمٹ جو گزشتہ سال دسمبر کے شروع میں امریکا میں ہوئی اس میں وزیر اعظم پاکستان کو تقریر کرنے کے لیے صرف تین منٹ دیے گئے۔
چنانچہ پاکستان نے اس سمٹ میں شرکت نہیں کی۔ فروری کے شروع میں چین میں سرمائی اولمپکس کا آغاز ہو رہا ہے جس کا امریکا اور اس کے اتحادی بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا اپنے دور حکومت میں یہ چوتھا دورہ چین ہے جسے واشنگٹن اور نئی دہلی بغور دیکھ رہے ہیں۔ بھارت چینی ونٹر اولمپکس کا بائیکاٹ کر چکا ہے۔ امریکا اس کے اتحادی اور بھارت سب مل کر چین کے گرد گھیرا ڈال رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان ہی ہے جو اس معاملے میں امریکا کا ساتھ نہیں دے رہا۔ یہی چیز امریکا کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ ماضی میں تو پاکستان ایک ٹیلیفون پر ہی اپنی خود مختاری امریکا کے قدموں میں رکھ دیتا تھا۔ جب سے بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا ہے چین اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہو گئے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں چین کے عالمی مفادات بھی پاکستان سے وابستہ ہو چکے ہیں۔
سی پیک منصوبہ اپنے پہلے فیز کو عبور کر کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ جہاں پر چین پاکستان کو ٹیکنالوجی صنعتوں کی منتقلی اور اکنامک زونز کی تشکیل کے حوالے سے نئے اہداف دینے کو تیار ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے چین پہنچتے ہی دورے کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان سے تعلقات کی قدر کرتے ہیں۔ پاکستان ہمارا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ یہ کیسا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے کہ جس کی یہ عزت ہے کہ امریکی صدر کو اب تک فون کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔