پاکستان، چین اور امریکا تعلقات کی نوعیت

زمرد نقوی  پير 7 فروری 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین سے ذرا پہلے آئی ایم ایف کا پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط کا اجراء جو مہینوں سے رکا ہوا تھا معنی خیز ہے کہ ناراض پاکستان کہیں بہت زیادہ ہی چین کی طرف نہ جھک جائے۔

اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دورہ چین کے بعد پاک امریکا تعلقات کی اصل صورت حال واضح ہوگی کہ یہ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ امریکا نے پچھلے 10 سالوں میں برصغیر کے حوالے سے ایک بہت بڑی پالیسی شفٹ لی کہ اس نے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا جب کہ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کی آنکھ کا تارا رہا۔

اس سے پہلے اتنی زیادہ اہمیت پاکستان کو کبھی نہیں ملی۔ جب تک افغانستان میں امریکی مفاد رہا، پاکستان کی اہمیت رہی۔ ریمنڈ ڈیوس واقعہ ہو یا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں گہرے شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔

یہاں تک کہ گزشتہ سال 15اگست کو کابل سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات شدید سرد مہری کا شکار ہو گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے پاس وزیر اعظم پاکستان کو ٹیلیفون کرنے کے لیے وقت نہیں۔ چار سال ہونے کو آ رہے ہیں، پاکستان میں امریکی سفیر کا تعین نہ ہو سکا۔ باوجود اس کے کہ نامزد امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے نام کا اعلان ہو چکا ہے۔

امریکا کو پاکستان سے بہت سی شکایات ہیں ان میں سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں امریکی شکست کا ذمے دار ہے۔ دوسری بڑی شکایت چین کا روڈ اینڈ بیلٹ منصوبہ ہے جس میں پاکستان سی پیک کے ذریعے شامل ہے۔ امریکا پاکستان سے اس بات پر سخت ناراض ہے کہ پاکستان چین کا اثرو رسوخ سینٹرل ایشیا اور مشرق وسطی میں تیزی سے بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔

اگر سچ پوچھا جائے تو اصل شکایت ہی یہی ہے۔ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے توڑ کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایک متبادل منصوبہ بھی پیش کیا جس میں بہت کم ملکوں نے دلچسپی لی۔ امریکا نے پاکستان کی کمزور معاشی حالت کے پیش نظر اپنے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں کو استعمال کیا تا کہ پاکستان کو چین سے دور کیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف کی صرف ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو گزشتہ چند ماہ میں کھربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

پاکستان میں طاقتور امریکی لابی جو پاکستان سے زیادہ امریکا کی وفادار ہے اس لابی کے لوگوں نے موجودہ حکومت کے آتے ہی امریکی خوشنودگی کے لیے سی پیک کے حوالے سے ایسے بیانات دیے جس سے چین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ دورہ چین سے پہلے نوشکی پنجگور میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دہشت گردی کوئی اتفاق نہیں۔ اس کی ٹائمنگ پر غور فرمائیں۔ سی پیک کی دشمن دہشت گرد قوتیں پھر متحرک ہو کر اس اہم ترین دورے پر چین کو کیا پیغام بھیج رہی ہیں۔

امریکا ہو یا بھارت دونوں ہی سی پیک کے بدترین مخالف ہیں۔ جب پاکستان کی طرف سے فوجی اڈے دینے کے حوالے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کا بیان دیا گیا ، تو اس سے امریکی انا کو شدید ٹھیس پہنچی۔ چنانچہ ڈیموکریسی سمٹ جو گزشتہ سال دسمبر کے شروع میں امریکا میں ہوئی اس میں وزیر اعظم پاکستان کو تقریر کرنے کے لیے صرف تین منٹ دیے گئے۔

چنانچہ پاکستان نے اس سمٹ میں شرکت نہیں کی۔ فروری کے شروع میں چین میں سرمائی اولمپکس کا آغاز ہو رہا ہے جس کا امریکا اور اس کے اتحادی بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا اپنے دور حکومت میں یہ چوتھا دورہ چین ہے جسے واشنگٹن اور نئی دہلی بغور دیکھ رہے ہیں۔ بھارت چینی ونٹر اولمپکس کا بائیکاٹ کر چکا ہے۔ امریکا اس کے اتحادی اور بھارت سب مل کر چین کے گرد گھیرا ڈال رہے ہیں۔

اس وقت پاکستان ہی ہے جو اس معاملے میں امریکا کا ساتھ نہیں دے رہا۔ یہی چیز امریکا کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ ماضی میں تو پاکستان ایک ٹیلیفون پر ہی اپنی خود مختاری امریکا کے قدموں میں رکھ دیتا تھا۔ جب سے بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا ہے چین اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہو گئے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں چین کے عالمی مفادات بھی پاکستان سے وابستہ ہو چکے ہیں۔

سی پیک منصوبہ اپنے پہلے فیز کو عبور کر کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ جہاں پر چین پاکستان کو ٹیکنالوجی صنعتوں کی منتقلی اور اکنامک زونز کی تشکیل کے حوالے سے نئے اہداف دینے کو تیار ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے چین پہنچتے ہی دورے کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان سے تعلقات کی قدر کرتے ہیں۔ پاکستان ہمارا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ یہ کیسا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے کہ جس کی یہ عزت ہے کہ امریکی صدر کو اب تک فون کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔