- عجیب و غریب ڈیزائن کی حامل گاڑیاں
- سرجری سے انکاری معمر افراد کیلئے انتباہ
- صوتی آلودگی کے پرندوں پر مرتب ہونے والے سنگین اثرات
- جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے انتظامیہ انہیں اجازت دے، فضل الرحمان
- بھارتی وزیر خارجہ امیت شاہ ہیلی کاپٹر حادثے میں بال بال بچ گئے
- مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود بائیس فیصد کی سطح پر برقرار
- خیبر پختون خوا میں بارشوں سے تین روز کے دوران 10 افراد جاں بحق
- انوکھا انداز؛ نیوزی لینڈ ٹی-20 ٹیم کا اعلان 2 بچوں نے کیا
- علی رضا عابدی کے قتل میں ملوث چار مجرموں کو عمر قید کا حکم
- تحریک انصاف کے بیک ڈور کسی سے مذاکرات نہیں ہورہے، بیرسٹر گوہر
- سکھوں کے حقوق اور آزادی کیلیے آواز بلند کرتے رہیں گے؛ کینیڈین وزیراعظم
- پنجاب سے گزشتہ سال ڈھائی ہزار بچے اغوا، 891 جنسی زیادتی کا نشانہ بنے
- اسکاٹ لینڈ کے پہلے مسلم پاکستانی نژاد وزیراعظم نے استعفی دیدیا
- عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں معمولی کمی
- ہم پاکستان کو سرمایہ کاری اور تجارت کے حوالے سے ترجیح دے رہے ہیں، سعودی وزیر تجارت
- لاپتا افراد کے اہل خانہ کے دکھ کا کسی کو احساس ہی نہیں، سندھ ہائیکورٹ
- کے الیکٹرک نے بجلی کے نرخ میں 19 روپے فی یونٹ اضافے کی درخواست دیدی
- بشام میں چینی انجینئرز بس حملے میں ملوث ٹی ٹی پی کے 4 دہشتگرد گرفتار
- غزہ صورت حال؛ امریکی وزیر خارجہ اہم دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے
- چیئرمین سنی اتحاد کونسل کا پی ٹی آئی کو اسمبلیوں سے استعفے کا مشورہ
وفاقی حکومت نے مشکل حالات میں متوازن بجٹ پیش کیا
اسلام آباد: توقعات کے برعکس مالی سال 2022-23 کا وفاقی بجٹ حقیقت پسندانہ ہے اور ہدف بھی معروضی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کیے گئے ہیں۔
بڑے اہداف جیسے جی ڈی پی کی 5 فیصد نمو، برآمدات 35ارب ڈالر، ترسیلاتِ زر 33.2 ارب ڈالر اور ریونیو کا 70کھرب کا ہدف قابل حصول حد میں ہے۔ تاہم کچھ اہداف کا حصول چیلنجنگ ہوسکتا ہے۔ ان میں افراطِ زر کی شرح 11.5 فیصد اور تجارتی خسارہ جی ڈی پی کا 2.2 فیصد رکھنا، پٹرولیم لیوی سے 3کھرب روپے اور نجکاری کے ذریعے 96.41 ارب روپے حاصل کرنا شامل ہیں۔
سب سے زیادہ یہ انتظار کیا جارہا تھا کہ کون سا شعبہ نئے ٹیکسوں سے، اورکتنا متاثر ہوگا۔ تاہم نئے ٹیکس صرف 440 ارب کے لگائے گئے ہیں اور ان میں سے دو تہائی ڈائریکٹ ٹیکس ہوں گے جو بنیادی طور پر امیر طبقے پر لگائے گئے ہیں۔ سولر پینلز، اسپتالوں کو سپلائی، ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز کی درآمدات وغیرہ پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ آئندہ مالی سال میں ختم کردی گئی ہے۔ بیجوں، ٹریکٹر اور دیگر زرعی سامان اور آلات پر سے سیلز ٹیکس کے خاتمے سے زرعی شعبے کو فائدہ ہوگا۔
کسٹمز ڈیوٹی کے ضمن میں 400 ٹیرف ہیڈنگز کو ریشنلائز کیا گیا ہے، اسی طرح ریگولیٹری رجیم میں اصلاحات کی گئی ہیں اور فارماسیوٹیکل کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کی گئی ہے۔ جہاں ضروری تھا وہاں انکم ٹیکس میں بھی ریلیف دیا گیا ہے۔ بینکنگ سیکٹر پر ٹیکس 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کردیا گیا ہے۔ ٹیکس دہندگان کو ہراسانی سے بچانے کے لیے بھی متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے لیے مختص رقم 30 ارب روپے سے کم کر 50کروڑ روپے کردی گئی ہے۔
تفریحی صنعت کو ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ ہمیں کم برآمدات اور محدود بیرونی سرمایہ کاری اور غیرپیداواری شعبوں میں بڑھتے ہوئے اخراجات کی صورت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ موجودہ حالات میں جی ڈی پی میں تجارت کا تناسب بڑھانا اور بڑی مقدار میں بیرونی سرمایہ کاری کا حصول محض ایک خواب ہی رہے گا۔ بدقسمتی سے بجٹ میں ان مشکلات کے حل کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔