- محمود خان اچکزئی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل
- پنجاب میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اموات 26 تک پہنچ گئیں
- عوامی ردعمل پر شکار پور سے کراچی بھیجے گئے پولیس اہلکاروں کو شوکاز نوٹس جاری
- لاہور میں فائرنگ کے واقعات میں سب انسپکٹر سمیت تین شہری جاں بحق
- کراچی میں ڈکیتی مزاحمت پر سیکیورٹی گارڈ جاں بحق، سال 2024 میں اب تک 67 شہری قتل
- پانچواں ٹی 20: پاکستان نے نیوزی لینڈ کو شکست دیکر سیریز برابر کردی
- یوراج سنگھ نے ٹی 20 ورلڈ کپ کی سیمی فائنلسٹ ٹیموں کی پیش گوئی کردی
- سیکیورٹی فورسز کی ہرنائی میں بروقت کارروائی، ایک دہشت گرد ہلاک
- بھارت؛ منی پور میں مبینہ علیحدگی پسندوں کے حملے میں دو سیکیورٹی اہلکار ہلاک
- پی ٹی آئی میں اختلافات، شبلی فراز اور شیر افضل مروت آمنے سامنے آگئے
- بابر اعظم نے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ میں ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا
- بابر اعظم نے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ میں ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا
- داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی کی فیکلٹی انفارمیشن اینڈ کمپیوٹنگ کی گلبرگ ٹاؤن منتقلی کیلئے معاہدہ
- ججز کو کسی کا اثر رسوخ لینے کے بجائے قانون پر چلنا چاہئے، جسٹس اطہر من اللہ
- امیر خسروؒ کا عرس: بھارت میں پاکستانی زائرین کے ساتھ ناروا سلوک
- جنگ بندی کی تجویز پر اسرائیل کا جواب موصول ہوگیا ہے، حماس
- فواد چودھری کی پی ٹی آئی میں واپسی کا امکان
- اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات، پی ٹی آئی فوج کو دوبارہ سیاست میں دھکیل رہی ہے، حکومتی اتحاد
- سیشن جج وزیرستان کو مسلح افراد نے اغوا کر کے گاڑی نذر آتش کردی
- سبزیجاتی اشیاء پر انتباہ کو واضح درج کرنے پر زور
حکومت نے چینی برآمدکرنیکی اجازت نہ دی تومشکلات بڑھیں گی
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے چینی برآمدکرنیکی اجازت نہ دی گئی تومشکلات بڑھیں گی۔
ملک میں موجود فاضل چینی کی برآمد کے معاملے نے تنازع کی شکل اختیار کرلی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ حکومت کی جانب سے گنے کی امدادی قیمت 30 فیصد بڑھائے جانے کے نتیجے میں ملک میں چینی کی قیمت میں اضافہ بھی ناگزیر ہے، جو کم سے کم 30 فیصد ہوگا بشرطیکہ کسی اور وجہ سے نرخ مزید نہ بڑھیں۔
اس مسئلے کا دوسرا پہلو چینی کا فاضل اسٹاک ہے، جس کی وجہ سے رواں برس گندم کی بوائی شروع ہونے میں تاخیر ہورہی ہے۔
اگر حکومت نے چینی کے فاضل ذخائر کو برآمد کرنے کی اجازت نہ دی، تب بھی اگلے سال کے اوائل میں ملک میں چینی کی قیمت میں اضافہ ضرور ہوگا۔ چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے میں تاخیر سے حکومت کے لیے سہ طرفہ مشکل پیدا ہوسکتی ہے۔
اول یہ کہ ملک میں چینی کی خوردہ قیمت تو بہرحال بڑھے گی۔دوم یہ کہ عالمی منڈی میں چینی کی قیمتیں کم ہوجائیں گی، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان نے چینی کی برآمد سے بھاری مقدار میں قیمتی زرمبادلہ کمانے کا موقع گنوا دیا ۔
سوم یہ کہ شوگر ملیں گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگیوں میں تاخیر کریں گی، جس کے باعث کسانوں کو سرمائے کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا لازمی نتیجہ ربیع سیزن میں گندم کی بوائی میں تاخیر کی صورت میں برآمد ہوگا۔ پاکستان میں شوگر سیکٹر کو زیادہ فعال کرنے کے لیے اسے ’’کارکردگی پر مراعات‘‘ کے اصول پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
شوگر سیکٹر پر حکومتی کنٹرول ضرورت سے زیادہ ہے اور بے جا قواعد وضوابط نے ’’کارکردگی پر مراعات‘‘ کا ڈھانچا بری طرح متاثر کیا ہے۔حکومت کی جانب سے گنے کی کم سے کم امدادی قیمت مقرر کیے جانے کے طریقہ کار کے باعث عام کسان کے مقابلے میں ترقی پسند کسان کو کوئی اضافی فائدہ نہیں ملتا، اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں گنے کی فصل کا معیار اتنا بہتر نہیں ہوا،جتنا ہونا چاہیے تھا۔
پاکستان میں گنے سے سکروز کی کشید کی شرح 2011 میں 9.3 فیصد تھی، جو 2021 میں بڑھ کر 9.8 فیصد ہوگئی، اس کے مقابلے میں بھارت میں یہ شرح 11.5فیصد جبکہ چین میں 13فیصد ہے۔
حکومت نے شوگر انڈسٹری پر بعض پابندیاں محض اس لیے لگائی تھیں کہ عام صارفین کو ان کا فائدہ پہنچے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ ملک میں چینی کی کل کھپت میں گھریلو صارفین کا حصہ محض 20 فیصد جبکہ صنعتی صارفین کا حصہ 80 فیصد ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان حکومتی پابندیوں سے عام صارفین کے بجائے صنعت کار فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
جہاں تک کاشتکاروں کو مراعات دینے کا تعلق ہے تو حکومت فصلوں کی بیمہ کاری کے ذریعے کسانوں کو قدرتی آفات مثلاً سیلاب وغیرہ سے ہونے والے نقصانات سے کسی حد تک محفوظ رکھ سکتی ہے، اس کے علاوہ کسانوں کو کم مارک اپ پر قرضے بھی دیئے جاسکتے ہیں۔
شوگر انڈسٹری کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اس سیکٹر میں بے جا مداخلت نہ کرے اور درآمدات وبرآمدات کو آسان بنائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔