- گھٹیا مہم کسی کے بھی خلاف ہو ناقابل قبول ہے:فیصل واوڈا
- چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی ہوگی، ٹیموں کو شیڈول بھیج دیا ہے، چیئرمین پی سی بی
- پنجاب کی بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، 49 افسران کے تبادلے
- یوم مزدور پر صدر مملکت اور وزیراعظم کے پیغامات
- بہاولپور؛ زیر حراست کالعدم ٹی ٹی پی کے دو دہشت گرد اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک
- ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لیے انٹرویوز، تمام امیدوار ناکام
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان
- گجر، اورنگی نالہ متاثرین کے کلیمز داخل کرنے کیلیے شیڈول جاری
- نادرا سینٹرز پر شہریوں کو 30 منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا، وزیر داخلہ
- ڈونلڈ ٹرمپ پر توہین عدالت پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ، جیل بھیجنے کی تنبیہ
- کوئٹہ میں مسلسل غیر حاضری پر 13 اساتذہ نوکری سے برطرف
- آن لائن جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزم گرفتار
- انکم ٹیکس جمع نہ کروانے والے پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کی موبائل سمز بلاک
- میئر کراچی کا وزیراعظم کو خط، کراچی کے ٹریفک مسائل پر کردار ادا کرنے کی درخواست
- رانا ثنا اللہ وزیراعظم کے مشیر تعینات، صدر مملکت نے منظوری دے دی
- شرارتی بلیوں کی مضحکہ خیز تصویری جھلکیاں
- چیف جسٹس مداخلت کاروں کی خاموش سرپرستی کے بجائے تمام تجاویز سامنے لائیں، پی ٹی آئی کا مطالبہ
- کراچی پولیس کا اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ
- ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز سامنے آگئیں
- آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں منتقل
What a country!۔
IFWA کی ماہانہ کافی مارننگ… اب کے جاپانی پینٹنگ کے آرٹ سکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا، فارن آفس کی خواتین کے زیر اہتمام … ان ہی کے لیے ہر ماہ کسی نہ کسی بہانے مل بیٹھنے کو تقریب ہو جاتی ہے… ہم بھی ممبر ہونے کے باعث جب غم روز گار فرصت دے تو چلے جاتے ہیں۔ IFWA کے اس چھوٹے سے ہال میں پینٹنگ آرٹ سکھانے کا سارا بندوبست تھا اور ساتھ ہی دیوار پر بڑے سائز کا پروجیکٹر لگایا گیا تھا تا کہ سب لوگوں کو میز پر ہونے والی کارروائی اس پر نظر آتی رہے۔ دیر تک جوسز اور چائے کا دور چلتا رہا، بجلی نہ تھی اور دن کافی گرم تھا، اس بند سے ہال میں سب کی سانس بند ہونے لگی تو سب خواتین کاریڈور میں نکل کر گپ شپ کرنے لگیں۔
Demonstration کے آغاز کا وقت گیارہ بجے کا دیا گیا تھا، منتظمہ نے بتایا کہ بجلی ہر روز دس سے گیارہ بجے تک بند ہوتی تھی اس لیے یہ وقت رکھا گیا تھا، مگر گیارہ سے بارہ بج گئے اور پھر بارہ کا ہندسہ بھی گھڑیوں نے کراس کیا تو ان کے گھبراہٹ سے اور ہمارے شرمندگی سے پسینے بہنے لگے جب بار بار ان خواتین کی تان اس فقرے پر ٹوٹتی تھی، what a country
’’آپ لوگ اپنے روزمرہ کے معمولات کس طرح پلان کرتے ہیں…‘‘ کئی غیر ملکی خواتین کی طرف سے سوال کیا جا رہا تھا۔’’پلان کس کو کہتے ہیں؟‘‘ میں سوچ کر رہ گئی، ’’ہم کب کچھ پلان کرتے ہیں، ہمارے ملک میں تو حکومت کے پلان بھی دیہاڑی دار مزدور کے پلان کی طرح ہوتے ہیں… what a county‘‘
’’آپ لوگ کام کرنے والی خواتین ہیں، کس طرح اپنے کام کی جگہ پر اور گھروں پر گزارے جانے والے کم وقت میں اپنے وہ کام ترتیب دیتے ہیں جن میں بجلی کے استعمال کے بنا چارہ نہیں…‘‘ سوال پھر دہرایا گیا کیونکہ میں پہلے جواب کو صرف سوچ رہی تھی۔
’’بہت مشکل ہے جی…‘‘ میں نے ہولے سے کہا، ’’مگر کرنا پڑتا ہے… عادت جو ہو گئی ہے، کوئی کام مکمل نہیں ہوتا، استری کرنے لگو تو آدھے میں بجلی بند، کپڑے دھونے کو مشین میں ڈالو تو نصف سائیکل میں پہنچ کر بجلی کا بلاوا آ جاتا ہے، نہانے لگو تو علم ہوتا ہے کہ پریشر پمپ نہیں چل سکتا، کبھی پانی کی ٹنکی میں پانی ناپید ہو جاتا ہے کہ تین چار گھنٹے مسلسل بجلی بند ہو جاتی ہے بنا اطلاع کے…‘‘ یہ تو اسلام آباد کے بلا مبالغہ حالات ہیں جنھیں ان کے سامنے بیان کرتے ہوئے بھی شرم آ رہی تھی مگر یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس پر کپڑا ڈال کر اسے ڈھکا نہیں جا سکتا۔ ہم تنہا نہیں کہ ہم اس ملک کے عوام ہیں …بلکہ وہ لوگ جو اس ملک میں سفارت کار کے طور پر رہ رہے ہیں اگر ان کے اپنے پاس گھروں میں جنریٹر ہیں بھی تو انہیں جا بجا لوڈ شیڈنگ نظر تو آتی ہے نا۔
کام پر تو اور بھی مسائل ہیں… اے سی، پنکھے، فوٹو کاپی کی مشینیں، پروجیکٹر، ملٹی میڈیا، کمپیوٹرز، لیبارٹری کے آلات، پلاسٹک کوٹنگ کی مشینیں… یہ سب ہمارے روز مرہ کے کام ہیں جن کے لیے ہمیں بجلی کی شدید محتاجی ہے۔ غیر علانیہ، بے وقت اور طویل وقفوں کے لیے بجلی کا جانا کسی بھی کام کو زیر تکمیل تک پہنچانا یا کسی بھی ادارے کو چلانا نا ممکن بناتا جا رہا ہے۔ ایک دن بجلی کسی وقت پر جاتی ہے تو دوسرے دن کسی اور وقت پر … حکومت کو تو کسی بات کی پروا ہی نہیں…
’’آپ لوگ کیا کرتے ہیں… ایسے ظلم کے خلاف کسی فورم پر آواز اٹھاتے ہیں کیا؟‘‘ میں نے سوال کرنے والی کا چہرہ دیکھا۔
’’ایک ہم دو چار لوگوں کے آواز اٹھانے سے کیا ہو جائے گا؟‘‘ ہم میں سے ایک نے حیرت سے سوال کیا، ’’یہ مسئلہ پورے ملک کو درپیش ہے، ہم تو کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیتے ہیں جنریٹرز یا یو پی ایس چلا کر…‘‘
’’اتحاد اور اتفاق سے رہنے کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر آپ لوگوں نے اکائی کی طاقت کو جانا ہی نہیں… آپ کو علم ہی نہیں ہوا کہ قطرہ قطرہ ہی مل کر دریا بنتا ہے…‘‘ ان خاتون نے لاکھوں کروڑوں کی بات کی، ’’مگر المیہ یہ ہے کہ نہ آپ متحد ہیں نہ اکائی پر یقین رکھنے والے!‘‘ تھپڑوں کی تپش میرے لال چہرے پر نظر آ رہی تھی۔
’’کیا کریں ہم؟‘‘ میں نے چڑ کر پوچھا، ’’کیا ہم احتجاج کرنے کو سڑکوں پر نکل آئیں؟‘‘
’’ہاں … نکلیں آپ لوگ اور مجبور کریں اپنی حکومت کو… مجبور کریں اپنے پانی اور بجلی کے وزیر کو کہ وہ استعفی دے اگروہ کام نہیں کر سکتا تو…‘‘
’’وہ تو کام کرتا ہے میڈم، اس نے تو ایسی ایسی جگہوں کی بجلی بل ادا نہ کیے جانے کے باعث منقطع کی ہے کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا…‘‘ میں نے انھیں بتایا، ’’مگر المیہ یہ ہے کہ جہاں کی بجلی منقطع ہوتی ہے وہاں سے صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے اور پہلا مطالبہ ہوتا ہے کہ وزیر موصوف کو بر طرف کیا جائے کہ ان کی جرات کیسے ہو بلوں کے نا دہندگان کی بجلی منقطع کرنے کی…‘‘ میں نے انھیں بتایا۔
’’سب سے پہلے تو اس ملک میں کوئی یہ پوچھے کسی سے کہ کسی کی یہ جرات کیسے ہو کہ وہ ایک سہولت کا بل باقاعدگی سے نہ دے جسے وہ استعمال کرتا ہے… پہلے بل کی عدم ادائیگی پر اداروں کو بھی نوٹس دیا جائے اور چند دن کی مہلت دی جائے، عدم ادائیگی پر بجلی یا گیس منقطع کر دی جائے تو یوں کروڑوں اور اربوں کے نادہندہ جنم نہ لیں!!‘‘
’’کہتی تو آپ درست ہیں… مگر آپ یہ مت بھولیں کہ بات پاکستان کے تناظر میں ہو رہی ہے جہاں ملک کو دیوالیہ کرنا ہر حکومت کا اولین موٹو ہوتا ہے… اور ہم سب اس ملک کا خون چوسنے اور اس کی جڑیں کاٹنے والوں کو بار بار منتخب کر لیتے ہیں، جہاں ووٹ قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس بنیاد پر دیا جاتا ہے کہ الیکشن کے روز کس نے اپنے کیمپ میں زیادہ بوٹیوں والی بریانی دی۔ بھوک کے عفریت کا شکار عوام، پیٹ کے لالچ میں مبتلا، ایک ایک روٹی کو ترستی قوم کو اپنے لیڈر چننے کے لیے ووٹ کا حق نہیں ہونا چاہیے… بلکہ الیکشن لڑنے والوںکی طرح ووٹ دینے والوں کے لیے بھی کم از کم تعلیمی معیار کی شرط ہونی چاہیے تا کہ ووٹ ان کو ملیں جو اس کے صحیح حقدار اور اہل ہوں نہ کہ وہ جن کی جیبیں بھری ہوئی ہوں اور ان میں سوراخ بھی ہوں …‘‘ میں یہ سب بھی سوچ کر رہ گئی، کیا اغیار کے سامنے اپنے بھرم توڑیں، اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھائیں… (اس کام کے لیے ہمارا میڈیا ہے نا!)
ہم ایک ایسی بھٹکی ہوئی قوم ہیں، جنھیں کبھی کوئی قوم ہی تسلیم نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ ہم منتشر لوگوں کا ایک گروہ ہیں… ہمارے قائد ہمیں یہ تین نکاتی guideline دے کر چلے گئے کہ ہم اپنے ایمان کو واثق رکھیں، متحد رہیں اور کام کو منظم طریقے سے کریں۔ ہم ان میں سے کس بات پر عمل کر رہے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ ہمارے بابائے قوم کی جلائی ہوئی وہ شمعیں ہیں جن کی لو ہماری زندگیوں کو منور کر سکتی ہے۔ مگر ہم کسی بات پر متحد نہیں ہوتے، ہم ہر معاملے میں کئی رائے رکھنے والے لوگ ہیں جو کسی مسئلے کا حل اس لیے نہیں پا سکتے کہ ہم مسئلے کو نہ سمجھتے ہیں، نہ اس کے ممکنہ حل کو سوچتے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے صدق دل سے خواہش مند ہوتے ہیں …
’’احتجاج کرنے کو باہر نکلیں!‘‘ ان خاتون نے مشورہ دیا، تقریب شروع نہ ہو سکی تھی کہ بجلی ایک بجے بھی نہ آئی تھی، ہم نے اجازت چاہی، گاڑی میں بیٹھ کر پوری رفتار سے اے سی آن کیا… پسینہ ذرا سوکھا تو حواس بحال ہوئے۔
’’ہونہہ!! کہتی ہیں محترمہ کہ باہر نکل کر احتجاج کریں بجلی کی بندش کے خلاف…‘‘ میں بڑبڑائی، ’’باہر نکل کر دیکھیں کہ کیسے سورج آگ برسا رہا ہے، پہلے ہی گرمی کے باعث ہم ایک دوسرے کے سر پھاڑنے کو تیار ہوتے ہیں، احتجاج کو سورج کی تمازت تلے کھڑے ہوں گے تو خود سوزی سے کم کیا ہی کریں گے!!!
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔