- طالبان نے بشام حملے میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ مسترد کردیا
- ہنی ٹریپ کا شکار واپڈا کا سابق افسر کچے کے ڈاکوؤں کی حراست میں جاں بحق
- پی ٹی آئی نے شیر افضل مروت کو مکمل سائیڈ لائن کردیا
- پروازوں کی بروقت روانگی میں فلائی جناح ایک بار پھر بازی لے گئی
- عالمی بینک کی معاشی استحکام کے لیے پاکستان کو مکمل حمایت کی یقین دہانی
- سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 6 دہشت گرد ہلاک
- وزیراعظم کا ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان
- لاہور میں سفاک ماموں نے بھانجے کو ذبح کردیا
- 9 مئی کے ذمہ داران کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرانا چاہیے، صدر
- وزیراعلیٰ پنجاب کی وکلا کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خلاف مہم پر توہین عدالت کی کارروائی کیلئے بینچ تشکیل
- پہلے مارشل لا لگانے والے معافی مانگیں پھر نو مئی والے بھی مانگ لیں گے، محمود اچکزئی
- برطانیہ میں خاتون ٹیچر 15 سالہ طالبعلم کیساتھ جنسی تعلق پر گرفتار
- کراچی میں گرمی کی لہر، مئی کے اوسط درجہ حرارت کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
- زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم
- سائفر کیس: انٹرنیٹ پرموجود لیکڈ آڈیوز کو درست نہیں مانتا، جسٹس گل حسن اورنگزیب
- عمران خان نے چئیرمین پی اے سی کے لیے وقاص اکرم کے نام کی منظوری دیدی
- سوال پسند نہ آنے پر شیرافضل مروت کے ساتھیوں کا صحافی پر تشدد
- مالی سال 25-2024کا بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں پیش کیے جانے کا امکان
- کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے نئی ویکسین کی آزمائش
تیل نکلنے سے پہلے اہل عرب سمندر سے موتی ڈھونڈتے تھے
لندن: آج کی عرب دنیا کا تصور کیا جائے تو تیل سے مالامال ایک مالدار خطے کا تصور ذہن میں آتا ہے لیکن ایک صدی سے بھی کم وقت قبل عرب ممالک میں ابھی تیل دریافت نہیں ہوا تھا۔
میتھیو ٹیلر لکھتے ہیں کہ یہ ایک غریب خطہ تھا اور یہاں کا ذریعہ معاش گہرے پانیوں میں موتی ڈھونڈنا تھا۔ سامراجی آقاؤں کی سختی اور آپس میں کاروباری مقابلے کے باعث قیمتیں کم ہونے سے موتی ڈھونڈنے کے اس کام کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ 1920ء میں جاپان کے تیار کردہ مصنوعی موتی مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کی کم قیمت اور خوبصورتی کے باعث بحریرہ عرب کے گرم پانیوں سے نکلنے والے موتیوں کی مارکیٹ کم ہوتی چلی گئی۔
موتیوں کی تلاش میں پانی میں جانا انتہائی دشوار اور مشکل عمل تھا۔ چھلانگ لگانے والا شخص پہلے اپنے پورے جسم پر تیل ملتا پھر اسے دونوں کانوں میں روئی ٹھونسنا پڑتی۔ اس کے علاوہ انھیں ہاتھوں کی انگلیوں اور پیروں کو تیز اور نوک دار چٹانوں سے بچانے کے لیے ربڑ سے ڈھانپنا پڑتا۔ مئی اور ستمبر کے درمیان کویت، بحرین، دوبئی اور ابوظہبی سے لکڑی کی بنی ہوئیں سیکڑوں کشتیاں موتی تلاش کرنے بحیرہ عرب کے سفر پر نکلتیں۔
ان میں غوطہ خور، انھیں کشتی سے کنٹرول کرنے والے اور ملاحوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی تھی۔ یہ لوگ انتہائی مشکل حالات میں ہفتوں سمندر میں وقت گزارتے۔ ان میں سے ہر کوئی مقروض ہی رہتا تھا۔ ہندوستان سے ان موتیوں کی مانگ نے اس کاروبار کو زندہ رکھا۔ 1865ء میں بحرین نے جسے موتیوں کے کاروبار کا مرکز سمجھا جاتا تھا دور جدید کے مطابق 3 کروڑ پاؤنڈز کا کاروبار کیا۔
1904ء میں یہ کاروبار اپنے عروج پر تھا اور اس کی مالیت 10کروڑ پاؤنڈز کے قریب تھی۔ اس کے باوجود تنخواہوں اور کام کرنے کے حالات بد ترین رہے کیونکہ حکمران خاندان اور سامراجی طاقت برطانیہ جدیدیت کے مخالف تھے۔ اس سلوک نے موتی ڈھونڈنے کے کاروبار کو عرب ممالک میں پنپنے نہیں دیا اور وہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے۔ ان کی ایک پوری نسل نے انتہائی غربت میں وقت گزارا لیکن 1950ء میں بڑے پیمانے پر تیل کی دریافت نے عربوں کی زندگی اور قسمت ہی بدل ڈالی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔