- نظام انصاف ٹھیک ہونے تک کچھ ٹھیک نہیں ہوگا:فیصل واوڈا
- پہلا ٹی ٹوئنٹی: ویسٹ انڈیز نے پاکستان ویمن ٹیم کو ایک رن سے شکست دے دی
- خیبر پختونخوا: صوبائی وزراء اور مشیروں کی مراعات میں اضافے کی سمری تیار
- فوج سے جلد مذاکرات ہوں گے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بات ہوگی، شہریار آفریدی
- چین میں پاکستان کیلئے تیار ہونے والی پہلی ہنگور کلاس آبدوز کا افتتاح
- وزیراعظم کی ہدایت پر کرپشن میں ملوث ایف بی آر کے 13 اعلیٰ افسران عہدوں سے فارغ
- پتوکی کے دو بے گناہ نوجوان بھارت سے رہا ہوکر پاکستان پہنچ گئے
- بی آر ٹی کا مالی بحران سنگین، حکومت کا کلومیٹر کے حساب سے کرایہ بڑھانے کا فیصلہ
- محموداچکزئی کے وارنٹ گرفتاری جاری، 27 اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم
- چینی صدر اور امریکی وزیرخارجہ کی شکوے شکایتوں سے بھری ملاقات
- لاہور؛ 10 سالہ گھریلو ملازمہ پراسرار طور پر جھلس کر جاں بحق، گھر کا مالک گرفتار
- اغوا برائے تاوان کی واردات کا ڈراپ سین؛ مغوی نے دوستوں کے ساتھ ملکر رقم کا مطالبہ کیا
- فیس بک کے بانی کو 50 کھرب روپے کا نقصان ہوگیا
- عازمین حج کیلئے خوشخبری، جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ روڈ ٹومکہ میں شامل
- اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری میں تیزی، انڈیکس 72 ہزار 742 پوائنٹس پر بند
- بلدیہ پلازہ میں بیٹھے وکلا کمرے کا ماہانہ کرایہ 55 روپے دیتے ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان
- انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- کچے کے ڈاکوؤں سے رابطے رکھنے والے 78 پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ
- ایک ہفتے کے دوران 15 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں
- چینائی میں پاکستانی 19 سالہ عائشہ کو بھارتی شخص کا دل لگادیا گیا
تیل نکلنے سے پہلے اہل عرب سمندر سے موتی ڈھونڈتے تھے
لندن: آج کی عرب دنیا کا تصور کیا جائے تو تیل سے مالامال ایک مالدار خطے کا تصور ذہن میں آتا ہے لیکن ایک صدی سے بھی کم وقت قبل عرب ممالک میں ابھی تیل دریافت نہیں ہوا تھا۔
میتھیو ٹیلر لکھتے ہیں کہ یہ ایک غریب خطہ تھا اور یہاں کا ذریعہ معاش گہرے پانیوں میں موتی ڈھونڈنا تھا۔ سامراجی آقاؤں کی سختی اور آپس میں کاروباری مقابلے کے باعث قیمتیں کم ہونے سے موتی ڈھونڈنے کے اس کام کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ 1920ء میں جاپان کے تیار کردہ مصنوعی موتی مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کی کم قیمت اور خوبصورتی کے باعث بحریرہ عرب کے گرم پانیوں سے نکلنے والے موتیوں کی مارکیٹ کم ہوتی چلی گئی۔
موتیوں کی تلاش میں پانی میں جانا انتہائی دشوار اور مشکل عمل تھا۔ چھلانگ لگانے والا شخص پہلے اپنے پورے جسم پر تیل ملتا پھر اسے دونوں کانوں میں روئی ٹھونسنا پڑتی۔ اس کے علاوہ انھیں ہاتھوں کی انگلیوں اور پیروں کو تیز اور نوک دار چٹانوں سے بچانے کے لیے ربڑ سے ڈھانپنا پڑتا۔ مئی اور ستمبر کے درمیان کویت، بحرین، دوبئی اور ابوظہبی سے لکڑی کی بنی ہوئیں سیکڑوں کشتیاں موتی تلاش کرنے بحیرہ عرب کے سفر پر نکلتیں۔
ان میں غوطہ خور، انھیں کشتی سے کنٹرول کرنے والے اور ملاحوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی تھی۔ یہ لوگ انتہائی مشکل حالات میں ہفتوں سمندر میں وقت گزارتے۔ ان میں سے ہر کوئی مقروض ہی رہتا تھا۔ ہندوستان سے ان موتیوں کی مانگ نے اس کاروبار کو زندہ رکھا۔ 1865ء میں بحرین نے جسے موتیوں کے کاروبار کا مرکز سمجھا جاتا تھا دور جدید کے مطابق 3 کروڑ پاؤنڈز کا کاروبار کیا۔
1904ء میں یہ کاروبار اپنے عروج پر تھا اور اس کی مالیت 10کروڑ پاؤنڈز کے قریب تھی۔ اس کے باوجود تنخواہوں اور کام کرنے کے حالات بد ترین رہے کیونکہ حکمران خاندان اور سامراجی طاقت برطانیہ جدیدیت کے مخالف تھے۔ اس سلوک نے موتی ڈھونڈنے کے کاروبار کو عرب ممالک میں پنپنے نہیں دیا اور وہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے۔ ان کی ایک پوری نسل نے انتہائی غربت میں وقت گزارا لیکن 1950ء میں بڑے پیمانے پر تیل کی دریافت نے عربوں کی زندگی اور قسمت ہی بدل ڈالی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔