- بشریٰ بی بی کو بنی گالہ سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم
- پی ایس ایل2025؛ مجوزہ شیڈول فرنچائزز کو ارسال
- پی ایس ایل کی سابق چیمپئین ٹیم نے پشاور میں میچز کروانے کا مطالبہ کردیا
- پاکستان کے ڈیری سیکٹر کو مسلسل چیلنجوں کا سامنا، ماہرین
- کھانسی جان لیوا کب ثابت ہوتی ہے؟
- ہر مشہور شخص لیڈر نہیں بن سکتا
- بغیر پروں کے پُر تعیش طیارے کا ڈیزائن پیش
- ازدواجی زندگی نے مجھے سیلز بزنس میں ماہر بنا دیا، امریکی شہری
- عامر 15سال بعد ٹی20 ورلڈکپ ٹائٹل کی تاریخ دہرانے کے خواہاں
- غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری رہی تو جنگ بندی معاہدہ نہیں ہوگا، حماس
- اسٹیل ٹاؤن میں ڈکیتی مزاحمت پر شہری کا قتل معمہ بن گیا
- لاہور؛ ضلعی انتظامیہ اور تندور مالکان کے مذاکرات کامیاب، ہڑتال موخر
- وزیراعظم کا 9 مئی کو شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تقریب کے انعقاد کا فیصلہ
- موبائل سموں کی بندش کے معاملے پر موبائل کمپنیز اور ایف بی آر میں ڈیڈ لاک
- 25 ارب کے ٹریک اینڈ ٹریس ٹیکس سسٹم کی ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین ہوگیا
- وزیر داخلہ کا ملتان کچہری چوک نادرا سینٹر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان
- بلوچستان کے مستقبل پر تمام سیاسی قوتوں سے بات چیت کرینگے، آصف زرداری
- وزیراعظم کا یو اے ای کے صدر سے ٹیلیفونک رابطہ، جلد ملاقات پر اتفاق
- انفرااسٹرکچر اور اساتذہ کی کمی کالجوں میں چار سالہ پروگرام میں رکاوٹ ہے، وائس چانسلرز
- توشہ خانہ کیس کی نئی انکوائری کیخلاف عمران خان اور بشری بی بی کی درخواستیں سماعت کیلیے مقرر
(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - دیوتا کی دھرتی
میں تالاب کنارے بیٹھا سبزپانی کو غورسے دیکھ رہا تھا ،ساکت پانی میں اچانک ہلچل ہوئی،خاموشی کا راج ٹوٹ گیا تھا ،میں نے بائیں جانب دیکھا جہاں ایک ہندونوجوان نے تالاب میں چھلانگ لگائی تھی ،اس نوجوان کے بعد پھرتوجیسے تالاب میں اشنان کرنے والوں کا تانتابندھ گیا ،سردی کے اس موسم میں ہندوؤں کو تالاب کے ٹھنڈے پانی میں نہاتا دیکھ کرمیرے جسم میں سردی کی لہر دوڑ گئی مگرہندو جن میں خواتین بھی شامل تھیں بڑے آرام سے اس تالاب کے پانی سے اشنان کررہے تھے۔
یہ کٹاس راج کا مقدس تالاب ہے، کہا جاتا ہے کہ جب دیوتا شیو مہاراج کی بیوی ستی اس دنیا سے رخصت ہوئی تو دیوتااس کی جدائی کے غم سے بے قابو ہو کر اس طرح رویا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک لڑی جاری ہو گئی۔ان متبرک آنسوؤں سے دھرتی پر دو تالاب وجود میں آئے، ایک اجمیرشریف کے نزدیک پشکر کا تالاب اور دوسرا چکوال کے کوہستان نمک میں کتکشہ کے نام سے مقبول ہوا، قدیم سنسکرت میں کتکشہ کا مطلب ہی برستی آنکھیں ہیں۔اس مقدس تالاب کے پانی کی یہ خاصیت بھی ہے کہ سردموسم میں بھی اس کا پانی نیم گرم ہوتا ہے ،ہندوؤں کے مطابق یہ تالاب چونکہ دیوتا کے آنسوؤں سے وجود میں آیا اس لئے پانی میں آنسوؤں کی گرمی آج تک محسوس ہوتی ہے ۔تاہم ماہرین پانی کے نیم گرم ہونے کی وجہ کیمیائی عمل بتاتے ہیں، چونکہ یہ مقدس دیوتائی آنسوؤں سے بنا ہے تو یہاں شیو دیوتا کا مندر بھی قائم ہے، جو وقت کے ساتھ پورے برصغیر کے اہم ترین مندروں میں شمار ہونے لگا۔ وقت گزرنے اور کثرت استعمال سے کتکشہ کا نام بھی مختصر ہو کر کٹاس بن گیا۔
میں بھارت سے آنے والے ہندویاتریوں کے ساتھ یہاں آیا تھا، سکھوں کے ساتھ توملک کے طول وعرض میں پھیلے ان کے سبھی مقدس مقامات اور گوردواروں میں جاچکا ہوں لیکن ہندوؤں کے مقدس مقامات دیکھنے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا تھا ،اسی لئے جب بھارت سے ہندو یاتری شیوراتری منانے پاکستان آئے تومیں بھی لاہورسے ان کے ساتھ ہولیا۔ چکوال کے نواحی علاقہ چواسیدن شاہ سے چندکلومیٹرکے فاصلے پربوسیدہ عمارتیں دکھائی دیتی ہیں یہ کٹاس راج کی عبادت گاہیں ہیں جہاں شیو کے ماننے والے صدیوں سے آتے رہے ہیں ، کٹاس راج کے یہ مندر برسوں ویران رہے ،زمانے کی گرم سردہواؤں نےان قدیم عمارتوں کو کافی نقصان بھی پہنچایا ہے ،تاہم 1987 میں پہلی بارپاکستانی سرکار نے ان مندروں کی مرمت اوردیکھ بھال کا سلسلہ شروع کیا اوربھارت سے ہندویاتری شیومہاراج کے بھجن گاتے یہاں آئے۔
فوٹو؛ آن لائن
میں ان خوبصورت اور قدیم عمارتوں کے سحرمیں گم مقدس تالاب کنارے بیٹھا تھا ،مجھے یہاں اکیلے بیٹھے دیکھ کرمتروکہ وقف املاک بورڈ کے ڈپٹی سیکرٹری فرازعباس نے آوازلگائی ،بھائی یہاں اکیلے کیا کررہے ہو،آؤ آپ کو اس قدیم عمارت کی سیر کراتاہوں،میں تالاب کنارے سے اٹھ کرفرازبھائی کے پاس پہنچ گیا اوروہ مجھے ساتھ لئے عمارتوں کے اس سلسلے کی طرف ہولئے۔ تالاب کے شمالی کنارے کے ساتھ ساتھ عمارتوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان میں بلند ترین گمبدی عمارت شیو کا مندر ہے۔ اس کو عرف عام میں اب کالا مندر کہا جاتا ہے ، صدیوں کی نمی نے اس پر کائی کی ایک ایسی تہہ جما دی ہے جو قدرے سیاہی مائل ہے۔ چار منزلہ اس عمارت کی پہلی دو منزلیں مختلف نقوش سے آراستہ تھیں جو کہ اب بمشکل ہی نظر آتے ہیں۔
شیو مندر کے پیچھے یعنی شمال کی طرف ایک ڈھلان کٹاس راج کی عمارتوں میں قدیم ترین عمارتیں کھڑی ہیں۔ ان میں ایک سفید چونے کا جسیم مندر ہے جو کالے مندر کی طرح چار منزلہ ہے۔ یہ عمارت 300 یا 400 سال پرانی ہے ، سفید مندر کے سامنے دو چھوٹے اور بالکل خستہ حال مندر ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دو مندر کٹاس کی تمام عمارتوں میں سب سے زیادہ قدیم ہیں۔ یہاں مختلف غاربھی نظرآتے ہیں جن میں گرو عبادت کیا کرتے تھے ۔یہاں بدھ مت کے بھی کئی آثارنظرآتے ہیں ،یہاں ہری سنگھ نلوا کی تاریخی حویلی بھی ہے جس کے صرف آثارہی باقی ہیں۔
فوٹو؛ آن لائن
کٹاس راج کے ان مندروں میں پوجا کے لئے آنیوالے ہندوؤں نے پہلے دن روزہ رکھا اورشیوراتری کےبعد بھوجن اورپھراشنان کیا ،ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ دیوتا کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے وجود میں آنے والے اس مقدس تالاب میں نہانے سے انسان کے گناہ دھل جاتے ہیں۔
ہندو یہاں شیودیوتا کے جسم کے ایک مخصوص حصے کی پوجا بھی کرتے ہیں ،پتھرسے بنا شیو کے جسم کا یہ اہم حصہ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے زمین کے سینے میں گم ہوچکا تھا لیکن محکمہ آثارقدیمہ نے بڑی محنت سے اس حصے کونکالا اوراس کی مرمت کی،اب ہندو پتھر سے بنے شیو دیوتا کے اس جسمانی حصے کی پوجا کرتے ہیں ،اس عبادت میں صرف شادی شدہ جوڑے ہی شریک ہوسکتے ہیں ،ہندوؤں کا منانا ہے کہ اس پوجا سے بانجھ عورتیں ماں بن سکتی ہیں۔
بھارت سے آنیوالے ہندوؤں میں زیادہ تربڑی عمرکے لوگ شامل تھے ، ہم لوگ دودن دیوتا کے ان مندروں میں رہے اورپھرواپس لاہورآگئے ، لیکن میرے دل ودماغ پرابھی تک ان قدیم مندروں اورکھنڈرات کا سحرچھایا ہوا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔