پریوں کا تالاب

شبنم گل  جمعـء 31 اکتوبر 2014
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

رنی کوٹ کا خوبصورت طلسماتی قلعہ ضلع دادو میں واقع ہے، جو کیرتھر پہاڑی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ سلسلہ دریائے سندھ کے کناروں سے سفر کرتا، لکی سے ہوتا ہوا جنوب میں بڈھاپور تک جا پہنچتا ہے۔ رنی کوٹ کا یہ منفرد قلعہ شہر ’’سن‘‘ سے 30 کلومیٹر جنوب مغرب میں شان و شوکت سے کھڑا ہے۔ یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا کہ اس شاندار قلعے کو کس نے تعمیر کروایا۔ یہ قلعہ انسانی ہاتھوں کی مہارت اور قدرتی پہاڑوں کے امتزاج سے تشکیل پایا ہے۔

پورا علاقہ پراسرار خاموشی کے لبادے میں لپٹا ہوا ہے۔ ان پہاڑوں کا رنگ موسموں کے ساتھ بدلتا ہے۔ یہ سکوت دھیان و گیان کے لیے کامل اور انتہائی پرکشش ہے۔ اس کا سحر دل کی گہرائیوں کو چھو لیتا ہے۔ ہمارا قافلہ بھی قلعے کی خوبصورتی کو دریافت کرنے کی دھن میں سن گیٹ کی سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے اوپر چھت پر جا پہنچا۔ ہر زاویے سے منظر مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ جھلستی دوپہر کی سختی لمحوں کے سحر میں محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ اس علاقے کی دیواریں، مورچے، گھاٹیاں، قدیم آبادیاں، قدیم غار اور قبرستان ماضی کے اثر میں لپٹے ہوئے ہیں۔ کئی میلوں میں پھیلا ہوا یہ قلعہ مشکل پہاڑی راستوں سے مزین ہے۔ رنی کوٹ کا مرکزی دروازہ سن گیٹ کہلاتا ہے۔ اس کے بعد سیاح ایک پراسرار دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ آمنے سامنے دو پہاڑیاں سر اٹھائے کھڑی ہیں۔

ایک پر میری کوٹ واقع ہے ، جبکہ سامنے شیر گڑھ کا دلکش منظر بے اختیار اپنی طرف کھینچنے لگتا ہے۔ ’’میری‘‘ کی اونچائی زیادہ نہیں ہے، البتہ شیر گڑھ سترہ ہزار پچاس فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ کچھ دریافت کرنے کی دھن میں جب سیاح اونچائی کی طرف سفر کرتے ہیں تو یہ فاصلہ پینتالیس منٹ میں طے ہوجاتا ہے۔ بدر ابڑو اپنی کتاب دیوار سندھ ’’رنی کوٹ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’کیرتھر کے اس انتہائی مشرقی سلسلے کے مختلف مقامات پر مختلف نام ہیں، تاہم عام طور پر اسے لکی پہاڑی سلسلہ کہا جاتا ہے۔ ان پہاڑوں کی تین متوازی قطاریں ہیں۔ لکی سلسلہ بھی تین متوازی پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ تینوں سلسلے بھگو ٹھوڑھو (Bhago Thoro) کے مقام پر مل کر ایک ہوگئے ہیں، جبکہ جنوب میں بڑھنے کے بعد تین پہاڑیاں ایک دوسرے سے جدا ہوکر ساتھ سفر کرتی ہوئی ’’رنی کوٹ‘‘ تک پہنچتی ہیں۔‘‘

درحقیقت سندھ کے یہ پہاڑی سلسلے بہت خوبصورت ہیں۔ خاموش، پرسکون اور الگ تھلگ صوفی رنگ لیے ہوئے۔

رنی کوٹ سے تالاب ’’پرین جو تڑ‘‘ پریوں کا گھاٹ کی طرف رواں دواں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پونم رات میں خوبصورت پریاں یہاں غسل کرتی ہیں۔ تمام راستے تالاب اور جھرنے دکھائی دیتے رہے۔ راستہ دشوار گزار تھا۔ ڈھلوان پر چڑھتے مشکل پیش آرہی تھی۔ کچھ لوگ بیچ راستے سے لوٹ گئے۔ دونوں طرف پہاڑ تھے۔ راستہ درختوں اور جھاڑیوں سے آراستہ تھا۔ جنگلی پودوں اور جڑی بوٹیوں کی خوشبو ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ کبھی سبزے کا رنگ گہرا ہونے لگتا تو کہیں سوکھی جھاڑیاں راستے کے ساتھ چلتی جاتیں۔ ’’یہاں تو نہ کوئی تالاب ہے اور نہ ہی پریاں۔‘‘ مایوسی سے کسی نے کہا تو تمام لوگ مسکرانے لگے۔

لیکن مجھے یقین تھا کہ فطرت کی سادگی و حسن ہماری آنکھوں کی منتظر ہے۔ پھر یکایک سبز پانی دکھائی دیا۔ یہ چشمہ راستے کے قریب سے بہہ رہا تھا۔ نیچے بڑے بڑے پتھروں کے درمیان پانی کی لہریں ہلکورے لے رہی تھیں۔ ہر طرف ٹھنڈک کا احساس پھیل گیا۔ ’’وہ رہا پریوں کا تالاب!‘‘ بچے خوشی سے چیخے۔ پہاڑوں کے درمیان پانی کا یہ چشمہ خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔ چشمے کے پانی میں معدنیات شامل ہوتے ہیں۔ بہتے ہوئے چشمے کی جلترنگ کے ساتھ پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولنے لگی۔ اس قدر خاموشی اور سکون تھا کہ شہر کے شور کا ستایا ہوا احساس خالص لمحوں کی تاثیر میں جگمگانے لگا۔ ایسے ماحول میں آکر سوچیں اور احساس فطری ماحول کے زیر اثر منفی لہروں کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں، اور فطری ماحول کا یہ مشاہدہ سوچ، سمجھ اور فیصلے کی قوت کو جلا بخشتا ہے۔

میں نے اوپر پہاڑ کی طرف دیکھا تو سہ پہر کی دھوپ میں پتھروں کا رنگ سونے کی طرح دمک رہا تھا۔ پہاڑ پر جنگلی درخت کے قریب آسمان پر چاند کا دھندلا عکس نمایاں تھا۔ وہ لمحے کیمرے کی آنکھ میں قید ہوکر امر ہوگئے۔

پہاڑ، درخت اور چاند کا عکس احساس میں جذب ہوگئے۔ یہ اپنی نوعیت کا حسین منظر تھا۔ آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں کپاس کے پھولوں جیسے بادل تیر رہے تھے۔ سامنے پہاڑی کے پیچھے سورج جگمگا رہا تھا۔ سورج کی روشنی کے پس منظر میں پہاڑی کا رنگ تیز سرمئی ہوچلا تھا۔ سندھ میں جابجا ایسے مقامات پائے جاتے ہیں، جہاں ایسے خاموش، بامعنی اور حیران کن لمحے بکھرے ہیں۔ سندھ کی آب و ہوا معتدل اور توانائی سے بھرپور ہے۔ موسم اعتدال کے دائرے میں چلتے ہیں۔ ہر موسم خوب پھلتا، پھولتا اور رنگ بانٹتا ہے۔ یہ موسم اور فطرت کے رنگ پرتخیل، وجدانی اور تخلیق کے جوہر سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی دھرتی کو فن وفکر کی سرزمین کہا جاتا ہے۔

یہ پہاڑ چاند رات میں کس قدر حسین دکھائی دیتے ہوں گے۔ یہ بات فقط ان بنجاروں کو معلوم ہے، جو اس علاقے کو دریافت کرنے کی دھن میں دن رات یہاں رہتے ہیں۔ انھیں یہ علاقہ ہمیشہ مختلف دکھائی دیا۔ خاص طور پر بارشوں کے موسم میں، برساتی نالے جب پہاڑوں کے بیچ سے بہنے لگتے ہیں تب یہاں کے منظر دیکھنے کے لیے لوگ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو خاموشی سے ہم کلام ہونا چاہتا ہے، یہاں آکر لمحوں کا تحرک حاصل کرسکتا ہے اور فطرت کے کئی پوشیدہ رخ دھیرے دھیرے سامنے آتے رہتے ہیں۔

سندھ کے مہم جو محققین اشتیاق انصاری اور بدر ابڑو رنی کوٹ پر برسوں سے کام کرتے رہے ہیں۔ پریوں کے گھاٹ سے واپس جاتے ہوئے پانی کا چشمہ مستقل مدھر سر بکھیرتا رہا۔ بہتا ہوا پانی اور اس کی آواز تھکے ہوئے ذہنوں کے لیے تازگی کا اچھوتا احساس ہے۔ جھرنے، آبشار اور چشمے زندگی کی ہلچل اور روانی کی علامت ہیں۔ قدیم مشرقی تہذیبیں ان سے روحانی قوت حاصل کرتی رہی ہیں اور ایسے علاقوں کو انرجی سیکٹر پلیسز گردانتی ہیں۔ کیونکہ ایسے علاقے فطری توانائی کا محور ہوتے ہیں۔

چند سال پہلے رنی کوٹ گئی تھی۔ اس سال خوب بارشیں ہوئی تھیں۔ اس وقت رنی کوٹ کا منظر مختلف تھا۔ بقول اشتیاق انصاری ’’اس قلعے کی پراسراریت مجھے ہمیشہ اپنی طرف کھینچتی ہے، اور ہر بار یہ منظر نیا اور منفرد محسوس ہوتا ہے، حالانکہ میں سالہا سال سے اس علاقے کی طرف سفر کر رہا ہوں۔‘‘ اس بات میں یقیناً صداقت ہے کیونکہ اس مرتبہ جب پہاڑی راستوں پر سفر کرنے لگے، تو کئی اچھوتے منظر نظروں سے گزرتے رہے۔ فطرت کے پاس الہامی کیفیت موجود ہے، جو فطری طور پر لمحوں پر منکشف ہونے لگتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔