- چیمپئینز ٹرافی؛ آئی سی سی کے پچ کنسلٹنٹ 3 روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے
- پاکستان کی دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے کاوشوں کی حمایت کرتے ہیں، امریکا
- بلوچستان اسمبلی کے دو ارکان کی کامیابی کے نوٹیفکیشن جاری
- ٹی20 ورلڈکپ 2024؛ پاک بھارت ٹیمیں سیمی فائنل تک نہیں پہنچیں گی
- ڈی جی خان؛ جھنگی پولیس چیک پوسٹ پر دہشتگردوں کا حملہ، 7اہلکار زخمی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ قومی ٹیم میں فرسٹ چوائس وکٹ کیپر کیلئے کانٹے کا مقابلہ
- ہم محنت کش جگ والوں سے!
- کراچی میں جمعے سے گرمی کی لہر میں کمی متوقع
- کراچی؛ تیز رفتار کار ڈمپر سے جا ٹکرائی، نوجوان جاں بحق، 4 زخمی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ آسٹریلوی اسکواڈ کا اعلان! مچل مارش مقرر
- کینیڈا میں تحریک خالصتان کے زور پکڑنے پر مودی سرکار شدید عدم تحفظ کا شکار
- وزیراعظم نے غیر ضروری خریدی گئی گندم کی تحقیقات کرانے کی منظوری دیدی
- دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ؛ قومی ٹیم کا اعلان کل ہوگا
- میکسیکو میں چوہے کا سوپ بیچنے والی واحد دکان
- ایسٹرازینیکا کووِڈ ویکسین سنگین بیماری کا سبب بن سکتی ہے، کمپنی کا اعتراف
- لاکھوں صارفین کا ڈیٹا چُرا کر فروخت کرنے والے اکاؤنٹس پر پابندی عائد
- مالیاتی پوزیشن آئی ایم ایف کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
- چینی پاور پلانٹس کے بقایاجات 529 ارب کی ریکارڈ سطح پر
- یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
- یکم مئی کے تقاضے اور مزدوروں کی صورت حال
لڑکیوں کی پیدائش پر شجرکاری!
بھارتی باشندوں کی اکثریت بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دیتی ہے۔ یہاں سالانہ لاکھوں لڑکیاں رحم مادر ہی میں زندگی سے محروم کردی جاتی ہیں۔ اسی لیے حکومت نے بچے کی جنس کا پیشگی تعین کرنے کے عمل کو غیرقانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگا رکھی ہے، تاہم یہ پابندی مؤثر ثابت نہیں ہوسکی اور لڑکیوں کا قتل عام اسی طرح جاری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے بڑھ گئی ہے۔ بھارتی باشندوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو بیٹیوں کو قتل نہیں کرتے مگر ان کی پیدائش کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لڑکیوں کی قبل از پیدائش یا بعد از پیدائش ہلاکتوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے بھارت کو بچیوں کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دے رکھا ہے۔
بیٹیوں کو زندہ درگور کردینے والے بھارت میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں ان کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں! پپلانتری نامی یہ گاؤں ریاست راجستھان کے ضلع راجسمند میں واقع ہے۔ جب کسی گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کے والدین اور اہل خانہ خوشی سے پُھولے نہیں سماتے۔ بیٹی کی پیدائش پر وہ مٹھائی تقسیم کرتے ہیں اور پھر سب کے سب ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پودے اٹھائے جنگل کی طرف چل پڑتے ہیں، کیوں کہ وہاں بیٹی پیدا ہونے پر 111 درخت لگانے کی روایت بھی پائی جاتی ہے!
8000 نفوس پر مشتمل گاؤں میں، سال میں اوسطاً 60 لڑکیاں پیدا ہوتی ہے۔ یوں گاؤں کے باسی سالانہ ساڑھے چھے ہزار سے زیادہ پودے لگاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس روایت کی ابتدا کے بعد سے اب تک یہاں ڈھائی لاکھ سے زیادہ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ ان میں نیم، آم اور پیپل کے درخت شامل ہیں۔ پودے لگانے کے بعد ان کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش پر خوشی کے اظہار کے طور پر درخت لگانے کی روایت گاؤں کے سابق سَرپنچ شیام سندر نے کئی برس پہلے اپنی بیٹی کی موت کے بعد شروع کی تھی۔
گاؤں میں چند ایک ایسے گھرانے بھی ہیں جو بیٹی کی پیدائش پر فکرمند ہوجاتے ہیں۔ ان گھرانوں کی نشان دہی اور مالی امداد کے لیے گاؤں کے سرکردہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی موجود ہے۔ کمیٹی گاؤں کے باسیوں سے اکیس ہزار روپے اور بچی کے باپ سے دس ہزار روپے لے کر اس رقم کو سرکاری اسکیم میں لگادیتی ہے۔ بیس سال کے بعد یہ رقم کئی گنا ہوکر لڑکی کے باپ کو ملتی ہے، یوں وہ بیٹی کے جہیز اور شادی کے دیگر اخراجات کی طرف سے بے فکر ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچی کے والدین سے ایک حلف نامے پر بھی دستخط کروائے جاتے ہیں جس کے تحت وہ اس بات کے پابند ہوجاتے ہیں کہ قانونی عمر تک پہنچنے سے پہلے بچی کی شادی نہیں کریں گے، اسے باقاعدگی سے اسکول بھیجیں گے اور اس کے نام پر لگائے گئے درختوں کی دیکھ بھال کریں گے۔
لڑکیوں کی پیدائش پر لگائے گئے درختوں کے لیے گاؤں کے باسیوں نے وسیع قطعہ اراضی مختص کر رکھا ہے جو جنگل کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یادگاری درختوں کو کیڑے مکوڑوں اور دیمک سے بچانے کے لیے ان کے اطراف ڈھائی لاکھ سے زائد گوارپاٹھا ( ایلوویرا) کے پودے لگائے گئے ہیں۔ یہ درخت اور گوارپاٹھا کے پودے گاؤں کی باشندوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ بھی بن گئے ہیں۔ خواتین گھروں پر ہی ایلوویرا کے پودوں سے مختلف مصنوعات مثلاً جل، اچار وغیرہ تیار کرتی ہیں، جنھیں مرد فروخت کرنے کے لیے شہر لے جاتے ہیں۔
پپلانتری اس لحاظ سے بھی ایک منفرد گاؤں ہے کہ اس کی اپنی ویب سائٹ اور ترانہ موجود ہے۔ یہاں شراب، جانوروں کے جنگل میں چَرنے اور درخت کاٹنے پر بھی پابندی عائد ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔