ایک ممتاز داستان گو کی پندرہ داستانیں

اقبال خورشید  پير 15 جون 2015
مستنصر حسین تارڑ کے افسانوں کے تازہ مجموعے پر ایک نظر۔ فوٹو: فائل

مستنصر حسین تارڑ کے افسانوں کے تازہ مجموعے پر ایک نظر۔ فوٹو: فائل

’’کوئی شے زندگی سے زیادہ حیرت ناک نہیں، ماسوائے لکھنے کے ۔۔۔ ماسوائے لکھنے کے ۔۔۔۔ ہاں بے شک، ماسوائے لکھنے کے!‘‘ (اورحان پامک کے ناول The Black Book سے)

ہاں، یہ عمل کہ جو کچھ انسان پر بیتی ہو، اُس نے جیا ہو، اُسے لکھ ڈالنا، تحیرخیز ہے، پر یہ تحیرخیزی اورحان پامک جیسے عظیم تخلیق کار کی موجودی سے نتھی؛ جس کے قلم سے گزر کر روکھی پھیکی حقیقت، یک سانیت کی حامل حقیقت، روشنی کے مانند اپنے تمام رنگ عیاں کر دیتی ہے، زندگی کی وسیع تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔

ایک گرد آلود، گرم دوپہر احسن سلیم سے ہونے والا وہ مکالمہ یاد آتا ہے، جب نثری نظم کے اس منفرد شاعر نے کہا تھا ’’مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کا طرز زندگی، فکر اور فلسفہ تو مختلف ہوسکتا ہے مگر احساس کی سطح پر وہ ایک ہیں۔ خوشی اور غم، مایوسی اور عزم؛ یہ احساسات اُن کے اندرون کو ایک سی کیفیت سے بھر دیتے ہیں اور بڑا ادیب وہ، جو اپنی تخلیق سے قاری میں وہ احساس اجاگر کر دے، جس سے خود گزرا ہو اور آفاقی ادب وہ، جہاں مصنف کا فلسفہ، احساس میں یوںگندھا ہو، جیسے گیلی مٹی، جسے پڑھنے والا، اپنی ثقافت اور روایات میں رہتے ہوئے، من چاہے برتن میں ڈھال لے‘‘۔

مستنصر حسین تارڑ کے فکشن کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ جہاں یہ قدآور داستان گو ہمیں اُس احساس کی گہرائی تک لے جاتا ہے، جس سے وہ خود گزرا، وہیں زندگی کی ایک وسیع تصویر بھی ابھارتا ہے۔ اور اپنی فکر بیان کیے بغیر، بڑی سہولت سے، ہمیں خود سے متفق کر لیتا ہے۔ گذشتہ ملاقات میں جب تارڑ صاحب کو نئے ناول کی بابت کریدا، تو انھوں نے کہا تھا ’’اِس محاذ پر مکمل خاموشی ہے۔‘‘ مجھے مایوسی ہوئی کہ میں اِس ممتاز ادیب کے مطالعیت کے عنصر سے بھرپور سفرناموں کا نہیں، اُس کی رجحان ساز میزبانی کا نہیں، بل کہ اس کے بے بدل فکشن کا مداح ہوں۔ مگر اب، جب کہ ان کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ’’15 کہانیاں‘‘ ہاتھ میں ہے، مایوسی کے بادل چھٹ چکے ہیں۔

کتاب میں خاصا تنوع ہے۔ کہانیوں کا مزاج جداگانہ۔ آپ لیبل نہیں لگا سکتے مگر انسانی فطرت ہے کہ جو کچھ لمحۂ حال میں اُس کے اردگرد ہو، جن واقعات نے اُس پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہوں، ان کی بابت لکھی تخلیقات اسے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ آج ہم دہشت گردی کے عفریت کے شکنجے میں، المیے کے بعد المیہ، ایک کے بعد دوسرا سانحہ، تعصب، تفرقہ۔ ایسے میں تارڑ جیسا تخلیق کار جب اِن سانحات کوکہانیوں کا روپ دیتا ہے، تو وہ کتاب میں موجود دیگر تخلیقات کے مقابلے میں، گو اُن کی حیثیت سے انکار نہیں، ہم میں زیادہ گہرائی تک اتر جاتی ہیں۔ پھر کتاب کے سرورق پر بھی یہی رنگ ہے۔

اِس کتاب کے ابتدائیے میں مصنف نے جہاں افسانوں سے عشروں پر محیط دُوری، پھر اُن کی سمت پلٹنے کے اسباب بیان کیے، وہیں شاعری کی نسبت نثرنگاری کو گھاٹے کا سودا بھی قرار دیا۔ شاید ہر فکشن نگار خود کو اِس رائے سے متفق پائے۔

آئیں! اب کتاب میں شامل کچھ کہانیوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ ’’پھولوں والی پہاڑی‘‘ سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے، جو قاری کے اندرون کو مہکا دیتی ہے، اسے سبز پودوں سی شادابی عطا کرتی ہے، مٹی کے عشق سے متعارف کرواتی ہے۔ گل بوٹوں کا، پہاڑوں کا ذکر، اس پر مستزاد مربوط نثر؛ کہانی آپ کو باندھ لیتی ہے ۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ’’میں ایک مرتبہ ایک پُرہجوم شہر سے گزرا تھا‘‘ کا بھی، جہاں روزمرہ کے معمولات کے دوران یک دم کہانی کا جنم ہوتا ہے، جس کا اختتام مردانہ فطرت کا ایک خاموش گوشہ آشکار کرتا ہے۔

اگر آپ برف پوش پہاڑوں، غیرانسانی کرداروں، تند ہواؤں اور جم چکے دریاؤں کے گرویدہ ہیں، تو ’’ایک سنو ٹائیگر کی سرگزشت‘‘ ایک مسحور کن تجربہ ثابت ہوگی کہ آپ اُس ذائقے سے لطف اٹھائیں گے، جو فقط روسی ناول نگار ہمیں عطا کیا کرتے تھے۔ اِس کہانی کی تیکنیک باکمال ہے۔ تارڑ صاحب کی خاصیت یہی کہ اُن کے ہاں تکنیک برتی تو جاتی ہے اور تواتر سے برتی جاتی ہے، مگر وہ داستان میں گندھی ہوتی ہے، اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔

’’یہ کہانی کون لکھ رہا ہے‘‘ وہ قصّہ، جو اس کتاب کا محرک بنا۔ مصنف نے بیس برس قبل یہ افسانہ لکھا، اور اِسے فراموش کر دیا اور پھر ایک رات اپنی یادداشت کے سہارے ازسرنو لکھنا شروع کیا، تو وہ در کھل گیا، جہاں درجن بھر کہانیاں منتظر تھیں۔ مجموعے میں شامل ’’جوہڑ میں ڈوب چکی لڑکی‘‘ ایک انوکھی کہانی ہے، جہاں ایک ناممکن صورت حال، محبت کی جادو بھری راہوں سے گزر کر ممکن ہوجاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی احساس ’’زرد پیراہن کا بَن‘‘ میں بھی ملتا ہے البتہ اول الذکر کا معاملہ کچھ اور ہے۔

’’باتیں کرتے ہاتھ، گواہیاں دیتے پاؤں‘‘ ، ’’ایک گونگے کی ڈائری‘‘ اور ’’جلا ہے جسم جہاں‘‘ ہماری رگوں میں دوڑتے اُس سرطان کو منظر کرتے ہیں، جسے انتہاپسندی اور دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ ’’ایک گونگے کی ڈائری‘‘ میں ظلم کو ظلم نہ کہنے والے، مظلوم کی حمایت سے اجتناب برتنے والے ہمارے گونگے سماج کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ’’جلا ہے جسم جہاں‘‘ کوٹ رادھا کشن کے ہول ناک سانحے پر؛ اتنا کرب ناک کہ آپ جھلس جائیں گے، خود کو اُس بھٹے میں پائیں گے، جہاں ایک مرد اور عورت کو جھونک دیا گیا۔

اس مختصر تاثراتی اور تعارفی تحریر کے آخر میں مَیں مجموعے میں شامل ایک ایسے افسانے پر بات کرنا چاہوں گا، جس کی بات اگر اوائل میں کی جاتی، تو وہ پوری تحریر نگل لیتا۔ یہ سانحۂ پشاور کے پس منظر میں لکھی کہانی ’’اے میرے ترکھان‘‘ ہے۔ اِسے پڑھتے ہوئے احتیاط کیجیے، آنکھوں میں تیرتی نمی کے باعث منظر دھندلا سکتا ہے، ضمیر کی سسکیاں سنائی دے سکتی ہیں، آپ ٹوٹ سکتے ہیں۔ یہ حزنیہ ایک شاہ کار ہے۔ الم ناک الفاظ استعمال کیے بغیر، جذبات انگیخت کیے بغیر، فقط ایک ترکھان سے ڈیڑھ سو تابوتوں کی تیاری کا تقاضا کرتے کردار کے وسیلے مصنف آپ کو اس احساس کی گہرائی تک لے جاتا ہے، جہاں ہم اپنی انا، اپنے تعصبات، اپنے سماجی نقاب سے جدا ہو کر کچھ دیر کو اپنے اندر کے انسان کے روبرو ہوتے ہیں۔ اگر اس مجموعے میں فقط یہی ایک افسانہ ہوتا، باقی ورق خالی ہوتے، تب بھی ہم اِس کتاب کو برسوں یاد رکھتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔