- معدہ کی صحت کو کیسے یقینی بنائیں؟
- ادویات کے مضر اثرات سے بچاؤ کی تدابیر
- ٹی20 ورلڈکپ؛ سابق کرکٹر نے حارث رؤف کو اپنے اسکواڈ سے باہر کردیا
- مسلسل ویپنگ کرنے والوں میں زہریلی دھاتوں کی موجودگی کا انکشاف
- یہ پھول آن لائن خریدنے سے ہوشیار رہیں!
- موسمیاتی تغیر کے خلاف پودوں کو بہتر بنانے کی کوششیں
- سنیما اور ہمارا لڑکپن
- لاہور: ٹکسالی گیٹ کے علاقے میں موٹرسائیکل سوار کی فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید
- رواں مالی سال کے 9 ماہ میں مالیاتی خسارہ 4337 ارب سے تجاوز کرگیا
- ترکیے کا عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس میں فریق بننے کا اعلان
- سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارش، اسکول بند
- قومی اسمبلی میں آزاد اراکین کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم، فہرست جاری
- کلرکہار؛ موٹروے پولیس اور خواتین کے درمیان تلخ کلامی کی ویڈیو وائرل
- اپیکس کمیٹی سندھ کا ہنگامی اجلاس طلب
- کراچی میں پارہ 39.4 ڈگری تک پہنچ گیا، کل 40 ڈگری تجاوز کرنے کا امکان
- پنجاب میں مزید 31 اعلیٰ افسران کے تقرر و تبادلوں کے احکامات
- متحدہ اور پی پی میں ڈیڈ لاک ختم، ملکر قوم کی خدمت کرنے پر اتفاق
- علی ظفر سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر نامزد
- چیمپئنز ٹرافی: بھارت کے میچز ایک ہی شہر میں کرانے کی تجویز
- اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ؛ ملائیشیا میں فاسٹ فوڈ برانڈ کے ریسٹورینٹس بند ہوگئے
جارح مزاج سمندری بگلے مصیبت بن گئے
انگلستان کے ساحلی علاقوں کے رہائشی طویل عرصے سے پریشان ہیں۔ان کی پریشانی کا سبب بجلی کی لوڈشیڈنگ، پانی کی قلت اور روزافزوں بڑھتی مہنگائی نہیں، کیوں کہ یہ مسائل تو پاکستانی قوم سے مخصوص ہیں؛ دراصل سمندری بگلوں ان کی ناک میں دَم کر رکھا ہے! انگلستان کے جنوب مغربی ساحلی علاقے میں پائے جانے والے بگلے انتہائی جارحانہ مزاج رکھتے ہیں۔
ان کی جارحیت کا نشانہ ساحلی پٹی میں بسنے والے لوگ بنتے ہیں۔ کورنوال، ڈیون اور دوسری کاؤنٹیوں میں انسانوں پر ان پرندوں کے حملے معمول بن چکے ہیں۔ انسان تو انسان، پالتو جانور بھی ان کی جارحیت سے محفوظ نہیں۔
جارح مزاج سمندری بگلے راہ چلتے ہوئے لوگوں پر جھپٹ پڑتے ہیں، اور ان کے ہاتھوں سے کھانے پینے کی چیزیں چھین کر فرار ہوجاتے ہیں۔ اولین کوشش میں ناکامی پر یہ بار بار اُس فرد پر جھپٹتے ہیں۔ خود زدہ فرد بالخصوص خواتین ان کے ڈر سے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز پھینک دیتی ہیںِ جسے یہ پنجوں میں دبوچ کر اُڑ جاتے ہیں۔ سمندری بگلے آئس کریم اور مشروبات کے خاص طور پر شائق ہیں۔ ساحلی کی کھلی فضا میں اگر کوئی مقامی فرد یا غیرملکی سیاح آئس کریم کھا رہا ہو تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کوئی بگلا اس کی طرف نہ لپکے۔
سمندری بگلے بچوں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ وہ ان پر جھپٹتے ہیں، اور بعض اوقات چونچ اور پنجوں سے انھیں زخمی بھی کردیتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے سمندری بگلوں کی جارحیت اس وقت ایک بار پھر ذرائع ابلاغ کا موضوع بن گئی جب ایک گھر کے باغیچے میں ایک پالتو کچھوا ان کا نشانہ بنا۔ کچھوے کو بگلوں کے غول نے چونچ اور پنجے مار مار کر ہلاک کرڈالا تھا۔ مئی اور جون کے مہینوں میں دو کتے بھی ان کی ہلاکت خیزی کا شکار ہوگئے تھے۔
کورنوال کاؤنٹی کے قصبہ ٹرورو میں بگلوں کے حملہ آور ہونے کے واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں۔ طویل غوروخوض کے بعد انتظامیہ نے قصبے میں سمندری بگلوں کی جارحیت سے بچاؤ کے لیے آزمائشی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام کے تحت قصبے کے تمام کھمبوں پر ایک خصوصی رنگ کیا جائے گا جو آئینے کے مانند دھوپ کو منعکس کرتا ہے ۔رنگ سے منعکس ہوکر فضا میں منعکس ہونے والی شمسی شعاعیں پرندوں کی آنکھیں چندھیا دیں گی، جس سے وہ عارضی طور پر اندھے ہوجائیں گے اور زمین کا رُخ نہیں کریں گے۔ اس خصوصی رنگ یا پینٹ کو Flock Off کہا جاتا ہے۔
Flock Off کے استعمال پر کچھ حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے مگر کورنوال کاؤنٹی کی کونسل کا کہنا ہے کہ بگلوں کو شہریوں سے دور رکھنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، کیوں کہ 1981ء سے ان پرندوں کے شکار پر پابندی عائد ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔