پاکستان میں سیاحت کا خاتمہ بالخیر؟

شاہد سردار  جمعـء 7 اگست 2015

کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت اس کی تاریخی عمارات، اس کی تمدن ہوتی ہے، اس ملک کی شناخت یا پہچان ہوتی ہے جنھیں آنے والی نسلیں ہمیشہ ’’ثقافتی ورثے‘‘ کے طور پر سنبھال کر ہمیشہ زندہ و پایندہ رکھتی ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ ملک جن کی ثقافت اعلیٰ اقدار کے حامل ہوتی ہیں۔

دنیا بھر کی طرف نظریں دوڑائیں تو بیشتر ممالک ہمیں ایسے دکھائی دیں گے جن کی معیشت کا مکمل دار و مدار ’’سیاحت‘‘ پر ہی ہے، ان میں سوئٹزرلینڈ، تھائی لینڈ، پیرس، لندن، امریکا، سعودی عرب اور بھارت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان ممالک کے علاوہ بھی کئی ملک ایسے ہیں جو سیاحت پر خاص طور سے توجہ دے کر اس کے فروغ کے لیے احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں۔

کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاحت کا یہ شعبہ معیشت میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ حال ہی میں ملائیشیا جیسے گرینش ملک میں سیاحت کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے ہیں اور غیرملکی سیاحوں کو اپنی سرزمین دکھانے کے لیے وہاں کی انتظامیہ نے شب و روز ایک کرکے بہت بڑا، بہت اچھا اور بہت سستا پیکیج رکھا ہے، جس کی وجہ سے سیاح اپنے اپنے ملکوں سے ملائیشیا کا رخ کر رہے ہیں۔

ہمارے دوست ملک سعودی عرب میں سیاحت آج بھی تیل کے بعد دوسرا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ہے۔ اس طرح متحدہ عرب امارات (دبئی) کی حکومت بھی سیاحت کو بہت زیادہ فروغ دے چکی ہے اور دنیا بھر سے لوگ جوق در جوق دبئی کا رخ کرتے ہیں، کاروبار بھی کرتے ہیں، سیر سپاٹے بھی کرتے ہیں اور موج مستی بھی خوب کرتے ہیں۔ دبئی بھارت کی فلمی صنعت و تجارت سے وابستہ افراد کا بھی پسندیدہ اور سستا ترین ملک ہے۔ ہمارے بیشتر سیاست داں بھی دبئی میں آرام اور شغل  کرنے وہاں باقاعدگی سے جاتے ہیں۔ اس طرح ترکی بھی سیاحت کے لیے ایک بہترین اور قابل دید ملک ہے جو اپنے ارباب اختیار کو سالانہ بہت زرمبادلہ کما کر دیتا ہے سیاحت کی مد میں۔

ہمارے ملک پاکستان کو بھی قدرت نے قدرتی حسن سے مالا مال کر رکھا ہے۔ لاہور، کراچی، ایبٹ آباد، اسلام آباد، مری، سوات، کاغان، ناران، ہنزہ، گلگت، چترال کلرکہار، بالاکوٹ، ہڑپہ، موہنجودڑو، بھمبھور، ٹیکسلا اور کوٹ ڈی جی جیسے مقامات و آثار قدیمہ موجود ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے وطن عزیز میں اور بھی کئی تاریخی مقامات اور عمارات ایسی موجود ہیں جن میں سے کئی کو اقوام متحدہ نے بین الاقوامی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک دور تھا جب ساری دنیا ہمارے ثقافتی اور تاریخی و قدرتی حسن سے آراستہ سرزمین کے متعلق بخوبی آگاہ تھی، خود ہمارے ملک کے باشندے اپنے وطن کے دلفریب مناظر، ثقافتی و تاریخی مقامات، عجائب گھر یا میوزیم دیکھنے اپنے اپنے شہروں سے بچوں کی اسکول کالجز کی چھٹیوں میں اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ آتے تھے، غیر ملکی سیاحوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ ان مقامات پر لگے رہتے تھے اور وطن عزیز کو سیاحت کی اس مد میں کروڑوں روپے سالانہ کا منافع حاصل ہوتا تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ ماحول کم ہوتے ہوتے اب تقریباً ختم ہوکر رہ گیا ہے۔

حالانکہ مری ایسا علاقہ ہے جہاں ہر سال برفباری کے سیزن میں ہزاروں ملکی اور غیرملکی لوگ یہاں آتے ہیں اور مری کی معیشت کا مکمل انحصار سیاحت پر ہی ہے۔

پاکستان کے شہروں میں لاہور کو ہمیشہ سے ایک ’’تاریخی شہر‘‘ کی حیثیت سے اہمیت حاصل رہی ہے، مغل بادشاہوں کے ذہن، فکر اور محنت و کاوشوں سے عالم وجود میں آنے والی عمارتیں، باغات، مساجد، گردوارے وغیرہ سبھی کو وطن عزیز کے لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی ایک عظیم الشان شہر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ لاہور شہر کو پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے اور دل ہمیشہ اندر سے بولتا ہے باہر سے نہیں۔

ہمیں لاہور کے موٹر وے، چوڑی سڑکوں اور اونچے اونچے پلازوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں، ہمیں لاہور شہر کے تاریخی ورثے اور اس کے بعد ادب و فن کے زوال پر بہت دکھ ہے۔

اولیا کا شہر، باغوں کا شہر ، شاعروں ادیبوں اور دانشوروں کا شہر، زندہ دلوں کا شہر لیکن افسوس بہت سی وجوہات کی بنا پر اس شہر کی اعلیٰ قدریں سوکھے پتے بن کر مٹی میں مل گئیں۔ اس شہر کی سہانی صبح، دلکش شام، خوشبو، رنگ، ذائقے، خلوص مروت، قدرشناسی سب بکھر کر رہ گئی۔ گو لوگوں کا لباس بظاہر بڑا اجلا ہے لیکن یہاں کے لوگ اندر سے میلے ہوتے جا رہے ہیں۔

اس شہر کے بڑے لوگ، جی ہاں بڑے لوگ واقعی منوں مٹی کے تلے دب گئے جو اس زمین کے کانٹے اپنی پلکوں سے چنتے رہے اور اپنے جسموں کا لہو دے کر سوکھتے پھولوں کو تازہ رکھنے کی کوشش مرتے دم تک کرتے رہے۔ افسوس صد افسوس موجودہ لاہور خواب غفلت کی حالت میں ہے، لاہور جاگے گا تو پاکستان جاگے گا، لاہور خواب غفلت سے نہ جاگا تو پھر سب کچھ چلا جائے گا اور شہر کو پتہ بھی نہ چلے گا۔

بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے تاریخی مقامات جنھیں کسی زمانے میں سیاحوں کی جان کہا جاتا تھا اب تنزلی، ٹوٹ پھوٹ اور زمین بوس ہونے کی طرف جانب سفر ہیں، ہمارے ملک کے عجائب گھر یا میوزیم بھی انحطاط اور زوال کا شکار ہیں، پاکستان کے پرفضا، جنت نظیر مقامات عرصہ دراز سے بدامنی، خوف و دہشت اور تخریب کاری کی وجہ سے سیاحوں کے بغیر سر جھکائے کھڑے ہیں، کیونکہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی نے سیاحت کا وجود ہی ریزہ ریزہ کرکے رکھ دیا ہے۔

عالم یہ ہے کہ اب سیاح بالخصوص غیر ملکی سیاح پاکستان میں سیاحت کے لیے آنے سے گریز کرتے ہیں اب وہ ملائیشیا، بھارت، دبئی اور ترکی کا رخ کرلیتے ہیں اور نتیجے میں پاکستان کو برسوں سے کروڑوں روپے کا زرمبادلہ اس مد میں میسر نہیں آ پا رہا۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان نے کبھی اپنے ’’اثاثوں‘‘ کی ’’قدر و منزلت‘‘ نہیں کی اور ہمارا ملک پاکستانی اثاثے ضایع کرنے کا ہمیشہ سے عادی رہا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس کی سب سے بڑی اور ٹھوس مثالیں ہیں۔ ہم اعتراف نہ کریں تو علیحدہ بات ہے وگرنہ مملکت خداداد پاکستان عملاً کب کا ’’روانڈہ‘‘ بن چکا ہے۔

ریاست (ملک یا وطن) ماں جیسی ہوا کرتی ہے اور اس کے اداروں کی وجہ سے شہری اپنی جان مال عزت کو محفوظ محسوس کرتے ہیں لیکن یہاں کے شہری ریاستی اداروں سے خوفزدہ ہیں۔  وزیر اغوا اور تاوان کے بدلے رہا ہوتے رہے ہوں اور جس میں سابق وزیراعظم اور سابق گورنر کے بیٹے برسوں سے عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہوں وہاں عام شہری اپنی جان مال اور عزت کو کیسے محفوظ رکھ سکتا ہے یا سیر و تفریح کا سوچ سکتا ہے؟

جس ملک میں جی ایچ کیو پر حملے ہو جائیں، جہاں جب چاہیں عسکریت پسند مہران بیس، کامرہ بیس، اور کراچی کے ہوائی اڈے جیسی حساس جگہوں میں گھس جائیں، جہاں پشاور کے اسکول میں باآسانی گھس کر درجنوں یا سیکڑوں بچوں کو گولیاں مار کر ختم کر دیا جاتا ہو وہاں کسی کے لیے عام شہریوں کے گھروں کی دیوار کو پھلانگنا کیا مشکل ہے؟ جس شہر میں  10 دہشت گرد بڑی آسانی سے ایئرپورٹ پر تباہی پھیلادیں وہاں کوئی سیاح سیاست کے بارے میں سوچے گا تو جھرجھری لے کر خود کو اس ارادے سے باز کرلے گا۔

امریکا، ہندوستان اور افغانستان  اپنی جگہ اصل خطرہ ہمیں اپنے ملک کے ’’اندر‘‘ ہے۔ دراصل جس ملک کے سیاست داں، مذہبی رہنما اور دانشور مل کر اپنے اپنے حصے کی جنت بنانے کے لیے اس ملک کو جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہوں وہ جینے اور سیرو تفریح کے قابل کیسے رہ سکے گا؟

ملکی سطح پر ہماری پستی اور گراوٹ کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ہم نے اپنی ثقافت، اپنے کلچر، اپنی تاریخ اور اپنے ورثے کو اس قدر بدنما اور بھربھرا بنا دیا ہے کہ وہ اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہا۔ ہمارے ملکی ارباب اختیار، حکمران یا کرتا دھرتاؤں کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ تاریخ کو اپنی صحیح حالت اور لوگوں کی روز مرہ زندگی میں واپس لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے لیکن انھوں نے ہمیشہ سے ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو قربان ہی کیا ہے۔

ہمارے ہاں ہر کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی امامت پر مامور ہے، ہر کوئی دوسرے کی اصلاح کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے، مگر اس طرف کسی کا دھیان نہیں اور اجر و ثواب کا دارومدار اعمال پر نہیں صرف تلقین پر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔