- حسن علی کی سلیکشن! آفریدی نے بھی حیران رہ گئے
- بھارت؛ شیوسینا کی رہنما کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ
- مخصوص نشستیں؛ پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف سنی اتحاد کونسل کی اپیل سماعت کیلیے مقرر
- قومی ٹیم کے دورہ جنوبی افریقہ کے شیڈول کا اعلان ہوگیا
- ڈاکوؤں کا نیا طریقہ واردات، حیدرآباد سے کراچی آنیوالی پوری وین لوٹ لی
- اسلام آباد میں رہنے والے چینی شہریوں کا ڈیٹا مرتب، سکیورٹی سخت کردی گئی
- گندم سمیت دیگر اشیا کی اسمگلنگ میں کسٹمز اہلکاروں کے ملوث ہونے کا انکشاف
- پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کے بھائی پختونخوا حکومتی ٹیم سے فارغ
- سلمان بٹ کا محمد حارث کو اپنے اوپر نظرثانی کا مشورہ
- عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت کم ہو گئی
- وزیراعظم نے گندم درآمد کرنے کا نوٹس لے لیا، تحقیقات کا حکم
- پی ایس ایل کی لیگ کمشنر نائلہ بھٹی بھی مستعفی ہوگئیں
- پولیس اہلکاروں کے ٹارگٹ کلر کے دورانِ تفتیش سنسنی خیز انکشافات
- آڈیو لیکس کیس؛ آئی بی کی بینچ پر اعتراض واپس لینے کی درخواست خارج
- ٹی20 ورلڈکپ؛ کس ٹیم کی مضبوط بیٹنگ لائن اَپ ہے؟ وان نے بتادیا
- اسحاق ڈار کی نائب وزیراعظم تعیناتی کیخلاف درخواست پر دلائل طلب
- سندھ ہائیکورٹ کا تھانوں کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں کیخلاف فوری کارروائی کا حکم
- انتخابی فائدے کیلیے مودی مسلم دشمنی میں زہرآلود تقاریر کررہے ہیں، عالمی میڈیا
- سرحدی کشیدگی؛ ایران کا افغانستان کے ساتھ بارڈر سیل کرنے کا فیصلہ
- اے ڈی بی اور ملکی اداروں کا معاشی کارکردگی پراطمینان کا اظہار
چین میں کنواروں کا انوکھا گاؤں
بیجنگ: مشرقی چین کے صوبہ انہوئی میں ’لاؤیا‘ نامی گاؤں میں کنوارے مردوں کی بڑی تعداد ہے جس کی وجہ سے یہ کنواروں کا گاؤں بھی کہلاتا ہے۔
2014 میں کیے گئے سروے کے مطابق اس گاؤں کی 1600 نفوس پر مشتمل آبادی میں 112 کنوارے مرد تھے جن کی تعداد اب خاصی بڑھ چکی ہے۔ چین میں شادی کی درست عمر 20 سال سمجھی جاتی ہے اور بیشتر چینی خواتین و حضرات لگ بھگ اسی عمر کے دوران رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں۔ لیکن لاؤیا نامی اس گاؤں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔
یہ چین کا بہت ہی دور افتادہ گاؤں ہے جہاں آمد ورفت کے کچے پکے راستے اتنے دشوار گزار ہیں کہ بیرونی دنیا سے بہت کم لوگوں کا یہاں سے گزر ہوپاتا ہے۔ سہولیات کے فقدان کی وجہ سے یہاں روزمرہ زندگی بھی بہت مشکل ہے جس کے باعث یہاں رہنے والی بیشتر خواتین گاؤں چھوڑ کر جاچکی ہیں جب کہ آس پاس کے دیہاتوں سے بھی خواتین یہاں آکر رہنا بھی پسند نہیں کرتیں۔
اسی ’’گرلز کرائیسس‘‘ (لڑکیوں کے بحران) کی وجہ سے لویا میں مردوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن میں اس وقت 30 سے 55 سال کے کنوارے مردوں کی ایک بڑی تعداد ہے جب کہ ان کے مقابلے میں خواتین بہت ہی کم رہ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی چین میں عورتوں کی شرحِ پیدائش خاصی کم ہے اور وہاں 115 لڑکوں کے مقابلے میں 100 لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔
1980 کے عشرے میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے ’’فی جوڑا ایک بچہ‘‘ کی پالیسی پر عمل شروع کروایا جس کے تحت ہر شادی شدہ جوڑے کو صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت تھی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں گزشتہ 30 سال کے دوران چین میں عمومی طور پر مردوں کی تعداد خواتین سے بڑھ چکی ہے اور لاؤیا گاؤں اس کی بہترین مثال پیش کرتا ہے۔
چین کے اس گاؤں میں رہنے والے کنوارے مرد انتہائی فرمانبردار بھی ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر مرد یہ گاؤں چھوڑ کر جانے کے لیے آزاد ہیں لیکن وہ اپنے بزرگوں کی خدمت کرنے کی خاطر یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔