امید بہار رکھ

شبنم گل  جمعرات 16 فروری 2017
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے اداروں کا فعال ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جس کے لیے بہتر منصوبہ بندی، مثبت حکمت عملی، صحیح اعداد و شمار اوروسعت نظری کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کے حالات کچھ اس طرح سے رہے ہیں کہ اجتماعی شعور کو پروان نہیں چڑھنے دیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ کئی شعبے ایسے ہیں، جن کی بنیادکچی رہ گئی ہے۔ بنیاد کوکبھی مضبوط بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ سے ہرطرف مسائل کا جم غفیرکھڑا ہو جاتا ہے۔ کسی مسئلے کا حل اس وقت مل سکتا ہے، جب مسئلے کی جڑ سے واقفیت حاصل ہو۔ لہٰذا مردم شماری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ ڈیموگرافک سروے کے توسط سے ترقی یافتہ ملکوں نے اپنا معیار زندگی بہتر بنایا ہے۔ ٹی وی شوز سے لے کر مختلف عمر کے حامل افراد کے لیے اشیا، ویکیشن پیکیجز اور مارکیٹنگ وغیرہ کا انحصار آبادی کے تناسب پر کیا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں انیس سال سے مردم شماری نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے ہر طرف بے شمار مسائل بکھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ انیس سال کے بعد مردم شماری 15 مارچ سے شروع ہو گی۔ 1998ء میں کی جانے والی آبادی کے جو اعداد و شمار سامنے آئے وہ 13 کروڑ 47 لاکھ 14 ہزار  افراد پر مشتمل تھے۔

اس کے بعد سے آج تک فقط اندازے سے کام لیا جاتا رہا ہے، جس ملک میں مختلف قومیتیں آباد ہوں، ان کی ثقافت، رہن سہن، زبانیں، سوچ کا انداز اور تہذیبی اقدار الگ ہوں، ایسی صورتحال میں ایسے قوانین و ضوابط کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے، جو معاشرتی وحدت کو منظم رکھ سکیں۔ قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کی پیروی، عوامی صفوں سے بے چینی اور احساس کمتری کا خاتمہ کر دیتی ہے۔

سماجیات کے ماہروں کے مطابق تمام سماج Universal Evolutionary Process (بین الاقوامی ارتقا کے طریقہ کار سے) سے گزرکر ترقی کرتے ہیں۔  ان کا کہنا تھا کہ ہر وہ سماج زندہ رہتا ہے، جو بقا کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، کیونکہ حالات سے مقابلہ کر کے بہتر حالات کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

جس ملک میں ملٹی کلچرل قومیں آباد ہوں، وہاں سماجی نفسیات کا توازن برقرار رکھنے کے لیے، ہر قوم کو برابری کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ اس وقت ممکن ہے، جب موقع پرستی اور اجارہ داری کے عوامل کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔

Modern Theory of Social Conflict (سماجی تضاد  کے جدید نظریے) کے مطابق سماج میں ہر طرح کے تضادات موجود ہوتے ہیں۔ یہ تضاد طبقاتی، نسلی، سیاسی، ملکی، قومی، علاقائی اور مذہبی بنیاد پر جنم لیتے ہیں۔ یہ تکراری مسائل اگر منفی رخ اختیار کر لیں تو معاشرے کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ ان تمام تر تضادات کو سمجھنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش سے بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔

زیادہ تر معاشی عدم استحکام اور طبقاتی کشمکش، بے اطمینانی اور احساس محرومی کا سبب بنتے ہیں۔ جس کا ازالہ وقت پر بے حد ضروری ہے۔ خاص طور پر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے معاشرے ذہنی انتشار اور اخلاقی پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا کہا جا رہا ہے کہ موجودہ آدم شماری کے نتائج، سائنسی بنیادوں پر مستند حکمت عملی وضع کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوں گے، کیونکہ آدم شماری کے بعد آبادی کے لحاظ سے بجٹ مختص کیا جا سکے گا۔

دوسری جانب ایک اور گمبھیر مسئلہ سر اٹھا رہا ہے، جس کے مطابق آدم شماری میں حصہ لینے کے لیے شناختی کارڈ لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سندھ کی بڑی آبادی، جو دوردراز علاقوں میں مقیم ہے، شناختی کارڈ کے حصول کے لیے پہنچ نہیں رکھتی اور نہ ہی غربت کی وجہ سے فیس ادا کرنے کے قابل ہے۔ ویسے بھی شناختی کارڈ بننے کا مرحلہ کسی طور آسان نہیں ہے۔ جب کہ آدم شماری کے پہلے مرحلے کا آغاز 15 مارچ سے  ہو جائے گا۔ وقت کم ہونے کی صورت میں لوگ بروقت، شناختی کارڈ بنوانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے چالیس فیصد لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔

دوسری طرف نادرا کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ مجھے خود اسمارٹ کارڈ بنوانے کے لیے کئی بار نادرا کے آفس کے چکر لگانے پڑے۔ عام لوگوں کو تو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انھیں رہنمائی اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ نادرا سینٹرز کی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا جا سکے گا تب تک لوگ، آدم شماری میں حصہ لینے کے لیے وقت پرکارڈ نہیں بنوا سکتے۔ ہر سینٹر پر زیادہ کاؤنٹر بنائے جائیں۔گاؤں و دیہاتوں کے لیے نادرا کی موبائل ٹیمز تشکیل دینی چاہئیں، تا کہ شناختی کارڈ سے محروم ان چالیس فیصد لوگوں کی شمولیت کو آدم شماری میں یقینی بنایا جائے۔

لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات پہنچانے کے لیے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو بھی اپنا کردار موثر طور پر ادا کرنا چاہیے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اندرون سندھ آبادی تیزی سے شہروں کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ جب کہ شہروں کی حالت زار بگڑتی جا رہی ہے۔ دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کے حوالے سے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں۔ دوسری جانب اندرون سندھ کے علاقے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ یہ علاقے تعلیم، صحت و دیگر بنیادی سہولتوں کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

پاکستان کی کل آبادی میں پچیس سال کے نوجوانوں کا تناسب تریسٹھ فیصد ہے۔ یہ نوجوان ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھیں نہ تو روزگار کے بہتر مواقعے میسر ہیں اور نہ ہی بیروزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے۔ اس آدم شماری کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ نوجوانوں اور افرادی قوت کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل تیارکیا جائے گا۔

خواتین ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن پاکستانی خواتین ساؤتھ ایشیا کی عورتوں کی طرح زیادہ خودانحصاری کی طرف مائل نہیں ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ صنفی تفریق اور کام کی جگہ عدم تحفظ کا احساس ہے۔ کھیتی باڑی اور گھریلو صنعتوں میں عورتوں کام کر رہی ہیں۔ مگر انھیں مارکیٹنگ یا مائیکرو کریڈٹ پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے آبادی کا بڑا حصہ معاشی طور پر خودکفیل نہیں ہو سکا ہے۔

پاکستان میں ہونے والی چھٹی مردم شماری اہمیت کی حامل ہے، جس کے توسط سے موجودہ معاشرتی مسائل کی حقیقی تصویر سامنے آ سکے گی جس کے مطابق صنعت، روزگار، آمدنی، تعلیم اور صحت کے علاوہ کاروبار، صارفین، نان پرافٹ آرگنائزیشن، گورنمنٹ ایجنسیز، سیاسی کینڈیڈیٹ ودیگر شعبوں میں بہتری آئے گی۔ معاشرتی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے جو بھی حکمت عملی تیار کی جائے گی وہ حقیقی ومنطقی بنیادوں پر تشکیل دی جا سکے گی۔

ترقی یافتہ ملکوں میں آدم شماری کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ سے بھی مدد لی جاتی ہے، مگر یہ ذرایع مہنگے اور جامع نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کافی لوگ قومیت، مذہب، آمدنی وغیرہ بتانا نہیں چاہتے۔ لہٰذا انھیں صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔ کامیاب آدم شماری وہ ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔