- جامعہ کراچی میں فلسطین اور امریکی طلبہ سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج
- ایل پی جی کی قیمت میں 11 روپے 88 پیسے کمی
- برطانیہ میں تلوار بردار شخص کا راہگیروں اور پولیس افسران پر حملہ
- معاشی شرح نمو میں بہتری آئی، مہنگائی کم ہوگی، وزارت خزانہ کا دعویٰ
- امریکا میں خالصتان رہنما کو قتل کرانے کی منظوری ’را‘ کے سربراہ نے دی؛ واشنگٹن پوسٹ
- خیبر پختون خوا میں درسی کتابوں کے دوبارہ استعمال کی پالیسی کامیاب قرار
- کراچی میں شہری سے 2 کروڑ روپے بھتہ مانگنے والا ملزم گرفتار
- ٹی20 ورلڈکپ؛ بھارت نے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کردیا
- یورپی سافٹ ویئر کمپنی کا پاکستان میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
- ٹی20 ورلڈکپ اور پاکستان کیخلاف سیریز کیلئے انگلینڈ کے اسکواڈ کا اعلان
- کراچی؛ جنریٹر مارکیٹ کی دکان میں گیس سلنڈر دھماکا، ایک شخص جاں بحق
- گندم خریداری کیس؛ حکومتی پالیسی میں مداخلت نہیں کرینگے، لاہور ہائی کورٹ
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمت کم ہو گئی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ سابق کرکٹر نے محمد عامر کو اپنے اسکواڈ سے باہر کردیا
- فوڈ رائیڈر جلد ڈلیوری کے چکر میں 28 چالان کروا بیٹھا
- لاہور کے حلقہ پی پی 161 میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا فیصلہ کالعدم قرار
- اسرائیلی کی غزہ پر وحشیانہ بمباری جاری؛ بچوں سمیت 34 فلسطینی شہید
- بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل منتقلی کیس میں عدالت سے باہر تصفیے کا امکان
- لاپتہ افراد کیس؛ سندھ ہائیکورٹ نے جبری گمشدگی پر سوالات اٹھا دیے
- وزیرستان؛ مسلح ملزمان سرکاری اسکول میں داخل، آتشیں مواد سے دھماکا
کارل مارکس کی جینی
ٹوکس گینوے کہتا ہے’’اب کم ازکم اس بات کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ جب مردکارہائے نمایاں انجام دے رہے تھے ۔اداروں کی تعمیر،تہذیب وثقافت اوراشیاء پیدا کررہے تھے لوگوں پرحکومت کر رہے تھے۔علم ودانش اورافکارکے موتی پرو رہے تھے یعنی وہ سب کررہے تھے جو تاریخ کا حصہ ہیں تو اس وقت بھی عورتیں کچھ نہ کچھ ضرورکررہی تھیں یعنی عورتیں زیادہ سے زیادہ لڑکیاں پیدا کر رہی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مرد پیدا ہوں‘‘ یہ اس زمانے کی بات ہے جب صنعتی انقلاب کی چاپ سنائی دینے لگی تھی۔ یورپی معاشرے کی عورت گھرکی چاردیواری میں مقید تھی،انھیں ابھی سماج میں برابری کی حیثیت حاصل ہونے میں ایک مدت درکار تھی۔
یورپ ترقی یافتہ نہ ہوا تھا اور ہمارے سماج کے کامیاب مردوں کے پیچھے خاموش جدوجہدکرنے والی عورت مغرب میں بھی موجود تھی جس پرگھر اوربچوں کی ذمے داری تھی۔ یہ اٹھارویں صدی کا دور تھا ہم پڑھتے ہیں کہ اس دوران یورپ میں بہترین درسگاہیں وجود میں آئیں جن سے نکلنے والے طالب علموں نے دنیا کوایک نئے جہاں سے آشنا کیا، تہذیب وترقی کی نئی دنیائیںدریافت کی لیکن !کیا یہ سب کسی ایک اکیلے انسان کے بس کی بات تھی یا پھرانھوں نے جس گہوارے میں آنکھ کھولی ہوگی۔ان کی تربیت ، توجہ اورقربانیوں کا ثمر ہے جس نے ایسا ماحول فراہم کیاکہ یکسو ہوکر نئی دنیا فتح کرسکیں۔ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑسکیں، یقینا ایسا ایک عورت کے ایثارکے بغیرکہاں ممکن تھا وہ عورت کسی بھی حیثیت سے کامیاب مردکی زندگی میں شامل ہو سکتی ہے۔ ایک ماں، بہن یا پھربیوی کوئی بھی کردار ہوسکتا ہے۔
انھی میں ایک کہانی جینی کارل مارکس کی ہے۔ کارل مارکس جواٹھارویں صدی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ سوشلزم انقلابی جس نے پرولتاریہ مقاصد کے لیے اپنی جان وقف کردی تھی۔ انقلاب کے خار زار پرساری زندگی اس کے قدم ہی لہولہان نہیں ہوئے تھے خود اس کی محبوبہ، پیاری بیوی بھی آبلہ پائی کا شکارہوئی، جینی جواپنے شہرکی خوبصورت ترین لڑکیوں میں شمار تھی ۔اپنے کردار میں بھی اعلیٰ صفات ر کھتی تھی۔اس کے والدین کا شمار امراء کے طبقے میں ہوتا تھا۔ والد حکومت پروشیا کی جا نب سے ٹرائے میں ایک بڑے عہدے پرفائز تھا۔ جینی کی ماں اسکاٹ لینڈکے نواب کی بیٹی تھیں۔ بھائی جرمنی کا وزیرداخلہ تھا۔کارل مارکس اور جینی آپس میں پڑوسی تھی، دونوں کے والدین بھی اچھے دوست تھے۔
جینی کے والدکا تعلق امرا طبقے سے ہونے کے باوجودکارل کے متوسط طبقے والے والدین سے ان کے تعلق میں گرم جوشی برقرار رہی۔ تعلیمی مدارج میں بہترین کامیابیاں سمیٹتے کارل مارکس اورجینی نے بچپن سے جوانی کا دورساتھ گزارا تھا، دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے جینی ایک رئیس زادی تھی۔اس کا ہاتھ تھامنے کے لیے شہر بھرکے امیرزادے خواہش مند تھے مگراس نے اپنی محبت کی خاطردنیاوی عیش وآرام کو ٹھکرادیا۔ دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا تو والدین نے کوئی اعتراض نہ کیا لیکن صرف ایک شرط رکھی کارل کومزید تعلیم کی شرط ماننی پڑی۔اپنی محبوبہ سے دورکارل نے دوران تعلیم ’’اپنی پیاری اور دلنوازجینی‘‘ کے لیے عشقیہ نظمیں لکھیں۔ جینی اورکارل نے ایک سال بعد شادی کی ان کی شادی پھولوں کا سیج نہ تھی، کارل مارکس ایک نئے نظام نئے فلسفے کودنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔
اس نے امراء وقت اور حکومت سے ٹکرلی تھی جس کے نتیجے میں اس کی خانگی زندگی ہمیشہ غربت وافلاس کا شکار رہی جیسا کہ ایک فاقہ مست انقلابی کا خاندان زندگی گزارتا ہے، جینی کو مالی آسودگی کا ایک دن بھی نصیب نہ ہوا۔ اس نے فاقے کیے، قرض خواہوں کی باتیںسنیں،کبھی جہیز میں ملے برتن رہن رکھے توکبھی گھرکا اثاثہ بیچا،جلا وطنی کی مصیبتیں سہیں مگرشوہر سے کبھی تنگدستی کی شکایت نہ کی مارکس کے پڑھنے لکھنے پرانقلابی سرگرمیوں میں کبھی دیوار حائل نہیں کی۔ جینی گھر آئے اس سے ملاقاتیوں سے ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتی ان کی میزبانی کی حتیٰ الامکان کوشش کرتی۔ اس کے چاربچے بھوک اور بیماری کے سبب مرگئے مگر اس کے عزم واستقلال میں کمی نہ آئی۔
افلاس وجلاوطنی کی زندگی گزارتی جینی کو وزیربھائی نے لکھا تم لوگ میرے پاس آکر رہومیں تمہاری کفالت کروں گا ۔بہن نے بھائی کو شکریہ کاخط لکھ کرجواب بھیجا ’’ میں نے کارل اوراس کے انقلابی خیالات سے شادی کی ہے۔ جرمنی میں ان دونوں کی گنجائش نہیں تو مجھے ایسا جرمنی نہیں چاہیے ‘‘ زندگی کے آخری ایام میں مارکس کو والدہ کی جانب سے ملی ہوئی جائیداد سے کچھ آسودگی نصیب ہوئی لیکن جینی اب رخت سفرباندھ چکی تھی جگرکے کینسر میں مبتلا ہوکراس کا انتقال ہوا۔ مارکس کے لیے یہ بہت بڑا دکھ تھا۔ اس کی دنیا تاریک ہوگئی تھی وہ کبھی اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکا۔ جینی پینتالیس سال اس کی رفیق سفررہی تھی اس نے ہر مشکل گھڑی میں اس کا بڑے خلوص سے ساتھ دیا تھا۔
مار کس کی انقلابی جدوجہد میں ایک خاموش کارکن کی حیثیت سے وہ بھی حصے دار تھی۔اس کی بیوی شریک غم، مہربان، ہمدم سب ہی کچھ بن کر رہی جس کا احساس مارکس کو ہمیشہ رہا۔ مارکس کے فکروخیال سے ہم آہنگ اوراس کے بہت قریبی دوست اورمفکراینگلز نے جینی کے جنازے میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا’’اس خاتون کی ذاتی اوصاف کے بارے میں کیا کہوں کہ اس کے دوست اس کی خوبیوں کوکبھی نہ بھول سکیں گے،اگرکوئی عورت ایسی تھی جو دوسروں کوخوش کرکے سب سے زیادہ خوش ہوتی تھی وہ صرف جینی مارکس تھی۔‘‘
جینی مارکس جیسی داستانیں ہمارے مشرقی معاشرے میں سیکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں جو بحیثیت ماں، بیوی اورکہیں بہن کے روپ میں ساری زندگی اپنی ایثارومحبت سے ایک کامیاب انسان بناتی ہیں ۔کیریئرکے معراج تک پہنچاتی ہے۔ایک خاموش سپاہی جوکسی صلے کی نہیں محض عزت ومحبت کی متنمی ہوتی ہیں لیکن ایسے کتنے ہیں جواس قربانی کو سمجھتے ہیں۔ اکثر ایسے ملتے ہیں جو اپنی کامیابیوں کو اپنی جدوجہد ومحنت کا ثمرمانتے ہیں اوراگرکریڈٹ دیتے بھی ہیں توان کے مرنے کے بعد کیا ہی اچھا ہوکہ زندگی میں ہی اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے عورت کو وہ عزت عطا کی جائے جس کی وہ حقدار ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔