- فیصل واوڈا اپنے موقف پر قائم ،نرمی لانے سے انکار
- ایرانی صدر کی شہادت آج سندھ میں یوم سوگ کا اعلان
- پینشن کی مد میں خطیر اخراجات؛ جامعات میں نیا سروس اسٹرکچر لانے کی تیاریاں
- سندھ حکومت میں اختلافات کی تردید، مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنے کا فیصلہ
- کرغزستان سے مزید پاکستانی طلبا کو لانے کیلیے دو خصوصی پراوزیں شیڈول
- لیاری میں جائیداد کے تنازع پر بھتیجے نے چچا کو قتل کردیا
- ہتک عزت قانون کی منظوری پر ایچ آر سی پی کا سخت اظہار تشویش
- خلیج بنگال میں رواں سال کا پہلا سمندری طوفان بننے کا امکان
- کراچی میں ہیٹ ویو کا کوئی امکان نہیں، محکمہ موسمیات
- کراچی؛ کمسن بچی کی نازیبا ویڈیوز وائرل کرنے والے ملزمان گرفتار
- وزیراعلیٰ کی کوئٹہ پریس کلب کو تالا ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی
- اسحاق ڈار کی ڈپٹی وزیراعظم تعیناتی کیخلاف درخواست سماعت کیلیے مقرر
- الیکٹرانک کرائم ایکٹ پر سیاسی مفاہمت پیدا کرنے کیلیے کمیٹی تشکیل
- پولٹری سیکٹر میں باہمی گٹھ جوڑ کے ذریعے چوزوں کی قیمت کے تعین کا انکشاف
- ابراہیم رئیسی کی جگہ بننے والے نئے عبوری صدر کون ہیں؟
- تیزگام ایکسپریس میں پریمیئم لاؤنج ڈائننگ کار کی سہولت فراہم
- جھوٹی خبر پر 30 لاکھ ہرجانہ، پنجاب اسمبلی میں ہتک عزت قانون منظور
- کراچی: نیو سبزی منڈی میں ڈاکو منشی سے 25 لاکھ روپے چھین کر فرار
- اسرائیل کا شام میں ایران کے ٹھکانوں پر حملہ؛ 6 اہلکار جاں بحق
- چین کے پرائمری اسکول میں چاقو بردار خاتون کا طلبا پر حملہ؛ 2 ہلاک اور 10 زخمی
ٹی وی پر بیباک اشتہارات اور معصوم بچوں کے سوالات
ٹیلی ویژن آج کل ہر گھر میں ایک اہم فرد کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ چلتا ہے تو گھر میں رونق سی لگ جاتی ہے۔ شام کے وقت گھر کے تمام افراد ایک ساتھ ٹی وی پر ڈرامے، ٹی وی شوز بڑے شوق و ذوق سے اکٹھے دیکھتے ہیں اور فیملی ٹائم کو انجوائے کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلز پر اس وقت اشتہارات آنا بھی عام سی بات ہے۔ ظاہر ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز کو بھی تو منافع کمانا ہوتا ہے لیکن کیا صرف ان کےلیے منافع ہی سب کچھ ره گیا ہے؟ اخلاقیات کوئی معنی نہیں رکهتے؟
ہوا یوں کہ اتوار کی صبح 10 بجے جب راحیلہ نے ٹیلی وژن کھولا تو کسی نجی ٹیلی ویژن پر مارننگ شو چل رہا تھا جسے دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھریلو کام بھی کرتی جارہی تھی۔ اچانک اس کی نظر ایک اشتہار پر پڑی جو کسی بھی صورت ہماری ثقافت اور اخلاقیات کےلیے قابل قبول نہیں تھا؛ اس لیے وہ اسے بھی بہت معیوب لگا اور اس نے فوراً چینل تبدیل کردیا۔
مگر تھوڑی ہی دیر بعد وہی اشتہار کسی اور چینل سے نشر ہونے لگا۔ لیکن اب ٹیلی وژن کے سامنے وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اس کی پانچ سالہ بیٹی ہانیه بھی اس کے ساتھ موجود تھی۔ اب کی بار راحیلہ وہ چینل تبدیل کرنا بھول گئی کیونکہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اشتہار ہانیہ کے معصوم ذہن پر کیا اثرات مرتب کرے گا۔
اشتہار ختم ہونے کے بعد ہانیہ نے بے ساختگی سے پوچھا، ’’امی جان یہ کس چیز کا اشتہار ہے؟‘‘
راحیلہ کو ہانیہ سے اس سوال کی تواقع نہیں تھی اس لئے راحیلہ کو یک دم سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہ سمجھ آیا لہٰذا اس نے ہانیه کو جھوٹا جواب دیتے ہوئے بات ادھر ادھر گول مول کردی۔ اسے بہت افسوس بھی ہوا لیکن وہ کرتی بھی تو آخر کیا کرتی؟ کیا بتاتی معصوم سی بچی کو کہ یہ کس ’’پروڈکٹ‘‘ کا اشتہار ہے؟
رات میں راحیلہ اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ بیٹھی ٹیلی وژن دیکھ رہی تھی۔ یہ وقت وہ تھا جو پرائم ٹائم کہلاتا ہے اور جس میں صرف فیملی ڈرامے نشر کئے جاتے ہیں۔ مگر اس وقت بھی یہی اشتہار ڈرامے کے دوران نشر کردیا گیا جس پر اس کے سسر نے کڑک دار آواز نکال کر کہا، ’’استغفر اللہ! چینل تبدیل کرو فوراً!‘‘
عین اسی وقت معصوم بچی ہانیه، جس سے اس اشتہار کے بارے میں غلط بیانی کی گئی تھی، سب گھر والوں کے سامنے بے ساختگی سے کہنا شروع ہوگئی، ’’مجھے معلوم ہے یہ کیا چیز ہے۔‘‘
اب کیا تھا، سب گھر والے ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے اور راحیلہ اس صورتحال میں کچھ نہ سمجھتے بوجھتے ہوئے، بچی سے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے اسے دوسرے کمرے میں لے گئی۔ اس پر معصوم ہانیہ نے نم آنکھوں سے راحیلہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’ماما میں نے غلط کیا کہا؟ آپ ہی نے تو مجھے بتایا تھا۔‘‘ بات تو اس معصوم کی بالکل صحیح تھی لیکن راحیلہ اس وقت جس کشمکش میں تھی اسے شاید وہی جان سکتی تھی۔
اس کے کچھ دن بعد یوں ہی باتوں باتوں میں اس سب واقعے کا ذکر اس نے اپنی سہیلیوں سے چھیڑا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئی کہ وہ اکیلی اس مسئلے کا شکار نہیں تھی بلکہ یہ مسئلہ ہر دوسری ماں کا تھا؛ اور اس جیسے ہزاروں واقعات ہر روز، ہر گھر میں رونما ہوتے ہیں۔ کہیں نازیبا پروڈکٹس کی نمائش پر، تو کہیں اداکاراؤں کے زیب تن کردہ لباس پر، تو کہیں رشتوں کا مذاق بنانے پر!
ہمارے بچے ماشاء اللہ بہت ذہین ہیں۔ وہ ہم سے سوال کرتے ہیں۔ اعلی حکام پیمرا سے میرا سوال ہے کہ ان بیباک اشتہارات پر معصوم بچوں کے معصومانہ سوالات کے جواب میں آخر کب تک ہم والدین اور بڑے جھوٹ بولتے رہے گے؟ کب تک اپنے ہی گھر والوں سے نظریں چراتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟
چلیے اگر آپ کےلیے یہ ممکن نہیں تو صرف اتنا ہی بتادیجیے کہ ہم اپنے بچوں سے ایسا کونسا جھوٹ بولیں جو ان کے معصوم اور فطری تجسس کی تسکین بھی کرے اور مستقبل میں ان کےلیے نقصان دہ بھی ثابت نہ ہو… ہوسکے تو ضرور بتائیے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔