ٹی وی پر بیباک اشتہارات اور معصوم بچوں کے سوالات

فرحین ناز  پير 25 ستمبر 2017
کہیں نازیبا مصنوعات کی نمائش تو کہیں اداکاراؤں کے لباس تو کہیں رشتوں کا مذاق، یہ مسئلہ ہر دوسری ماں کا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کہیں نازیبا مصنوعات کی نمائش تو کہیں اداکاراؤں کے لباس تو کہیں رشتوں کا مذاق، یہ مسئلہ ہر دوسری ماں کا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ٹیلی ویژن آج کل ہر گھر میں ایک اہم فرد کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ چلتا ہے تو گھر میں رونق سی لگ جاتی ہے۔ شام کے وقت گھر کے تمام افراد ایک ساتھ ٹی وی پر ڈرامے، ٹی وی شوز بڑے شوق و ذوق سے اکٹھے دیکھتے ہیں اور فیملی ٹائم کو انجوائے کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلز پر اس وقت اشتہارات آنا بھی عام سی بات ہے۔ ظاہر ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز کو بھی تو منافع کمانا ہوتا ہے لیکن کیا صرف ان کےلیے منافع ہی سب کچھ ره گیا ہے؟ اخلاقیات کوئی معنی نہیں رکهتے؟

ہوا یوں کہ اتوار کی صبح 10 بجے جب راحیلہ نے ٹیلی وژن کھولا تو کسی نجی ٹیلی ویژن پر مارننگ شو چل رہا تھا جسے دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھریلو کام بھی کرتی جارہی تھی۔ اچانک اس کی نظر ایک اشتہار پر پڑی جو کسی بھی صورت ہماری ثقافت اور اخلاقیات کےلیے قابل قبول نہیں تھا؛ اس لیے وہ اسے بھی بہت معیوب لگا اور اس نے فوراً چینل تبدیل کردیا۔

مگر تھوڑی ہی دیر بعد وہی اشتہار کسی اور چینل سے نشر ہونے لگا۔ لیکن اب ٹیلی وژن کے سامنے وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اس کی پانچ سالہ بیٹی ہانیه بھی اس کے ساتھ موجود تھی۔ اب کی بار راحیلہ وہ چینل تبدیل کرنا بھول گئی کیونکہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اشتہار ہانیہ کے معصوم ذہن پر کیا اثرات مرتب کرے گا۔

اشتہار ختم ہونے کے بعد ہانیہ نے بے ساختگی سے پوچھا، ’’امی جان یہ کس چیز کا اشتہار ہے؟‘‘

راحیلہ کو ہانیہ سے اس سوال کی تواقع نہیں تھی اس لئے راحیلہ کو یک دم سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہ سمجھ آیا لہٰذا اس نے ہانیه کو جھوٹا جواب دیتے ہوئے بات ادھر ادھر گول مول کردی۔ اسے بہت افسوس بھی ہوا لیکن وہ کرتی بھی تو آخر کیا کرتی؟ کیا بتاتی معصوم سی بچی کو کہ یہ کس ’’پروڈکٹ‘‘ کا اشتہار ہے؟

رات میں راحیلہ اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ بیٹھی ٹیلی وژن دیکھ رہی تھی۔ یہ وقت وہ تھا جو پرائم ٹائم کہلاتا ہے اور جس میں صرف فیملی ڈرامے نشر کئے جاتے ہیں۔ مگر اس وقت بھی یہی اشتہار ڈرامے کے دوران نشر کردیا گیا جس پر اس کے سسر نے کڑک دار آواز نکال کر کہا، ’’استغفر اللہ! چینل تبدیل کرو فوراً!‘‘

عین اسی وقت معصوم بچی ہانیه، جس سے اس اشتہار کے بارے میں غلط بیانی کی گئی تھی، سب گھر والوں کے سامنے بے ساختگی سے کہنا شروع ہوگئی، ’’مجھے معلوم ہے یہ کیا چیز ہے۔‘‘

اب کیا تھا، سب گھر والے ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے اور راحیلہ اس صورتحال میں کچھ نہ سمجھتے بوجھتے ہوئے، بچی سے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے اسے دوسرے کمرے میں لے گئی۔ اس پر معصوم ہانیہ نے نم آنکھوں سے راحیلہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’ماما میں نے غلط کیا کہا؟ آپ ہی نے تو مجھے بتایا تھا۔‘‘ بات تو اس معصوم کی بالکل صحیح تھی لیکن راحیلہ اس وقت جس کشمکش میں تھی اسے شاید وہی جان سکتی تھی۔

اس کے کچھ دن بعد یوں ہی باتوں باتوں میں اس سب واقعے کا ذکر اس نے اپنی سہیلیوں سے چھیڑا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئی کہ وہ اکیلی اس مسئلے کا شکار نہیں تھی بلکہ یہ مسئلہ ہر دوسری ماں کا تھا؛ اور اس جیسے ہزاروں واقعات ہر روز، ہر گھر میں رونما ہوتے ہیں۔ کہیں نازیبا پروڈکٹس کی نمائش پر، تو کہیں اداکاراؤں کے زیب تن کردہ لباس پر، تو کہیں رشتوں کا مذاق بنانے پر!

ہمارے بچے ماشاء اللہ بہت ذہین ہیں۔ وہ ہم سے سوال کرتے ہیں۔ اعلی حکام پیمرا سے میرا سوال ہے کہ ان بیباک اشتہارات پر معصوم بچوں کے معصومانہ سوالات کے جواب میں آخر کب تک ہم والدین اور بڑے جھوٹ بولتے رہے گے؟ کب تک اپنے ہی گھر والوں سے نظریں چراتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟

چلیے اگر آپ کےلیے یہ ممکن نہیں تو صرف اتنا ہی بتادیجیے کہ ہم اپنے بچوں سے ایسا کونسا جھوٹ بولیں جو ان کے معصوم اور فطری تجسس کی تسکین بھی کرے اور مستقبل میں ان کےلیے نقصان دہ بھی ثابت نہ ہو… ہوسکے تو ضرور بتائیے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔