پیپلز پارٹی کے پچاس سال

رشید جمال  جمعرات 30 نومبر 2017

مضبوط نظریہ، متحرک تحریک، فہم وفراست، سیاسی شعور، روشن خیالی اور باکردار قیادت ہی فرسودہ نظام میں مثبت تبدیلی اور انقلاب لاسکتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھی جس نے آگے بڑھ کرپاکستان کے مظلوم اور غریب طبقے کی زندگی بدلنے کی جستجو کی۔ 30نومبر سے یکم دسمبر 1967ء تک لاہور میںجاری رہنے والے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔

ڈاکٹر مبشر حسین کے گھرپر اجلاس منعقد ہوا جس میں میر رسول بخش تالپور، شیخ رشید، جے اے رحیم، معراج محمد خاں، خورشید حسن میر، ملک حامد سرفرازخاں، امان اللہ خاں اور راجہ منور سمیت دیگر شخصیات شریک تھیں۔ کم و بیش اڑھائی سو کے قریب کارکنوں، رہنماؤں، ادیبوں اور شاعروں نے کنونشن میں شرکت کی۔اجلاس میں نئی پارٹی کی تشکیل و ساخت کے خدوخال طے کیے گئے اور ذوالفقارعلی بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ جن بنیادی مقاصد کے لیے نئی پارٹی تشکیل دی گئی تھی ان میں ’’مساوات پر مبنی جمہوریت‘‘ اور معاشی ومعاشرتی انصاف کے حصول کے لیے ’’اشتراکی نظریات کا نفاذ‘‘ شامل تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں چار بنیادی اصول طے کیے جس میں اسلام ہمارا دین ہے۔

جمہوریت ہماری سیاست ہے۔

سوشلزم ہماری معیشت ہے۔

طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ ایک ایسا پیغام تھا جو عوام کے جذبات اور احساسات کے قریب ترین تھا، اس لیے دیکھتے دیکھتے بھٹو عوام کے ہیرو بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو میں عوام کی انقلابی امنگوں کو پرکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت تھی۔ نئی پارٹی کی تشکیل، اس کا پروگرام اور پالیسی محنت کشوں کی اپنی خواہشات کی عکاسی تھی۔ پیپلزپارٹی نے صرف روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ ہی نہیں دیا گیا تھا بلکہ انقلابی سوشلزم کا واضح پروگرام ان محروم اور استحصال زدہ عوام کے سامنے پیش کیا تھا، جو اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے بے قرار تھے۔ سرمایہ داری، جاگیرداری اور سامراجی جبر کے خلاف اعلانِ بغاوت اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے معاشرے اور ریاست کو یکسر تبدیل کر دینے کے پیغام ہی نے پیپلز پارٹی کو راتوں رات اس ملک کی سب سے بڑی اور مظلوم عوام کی حمایت یافتہ پارٹی بنا دیا تھا۔

بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کی کشش سے عوام جوق درجوق انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے پیپلز پارٹی کی طاقت بنتے رہے۔ جمہوریت کے لیے پیپلز پارٹی کی قربانیاں بے مثال رہی ہیں۔ بھٹو کے نظریے کو زندہ رکھنے کے لیے بینظیر بھٹو، شاہ نواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور بے شمارکارکنان نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اپریل 1979ء سے اب تک کتنے سال بیت گئے۔ کتنی حکومتیں بدل گئیں، دنیا میں کتنی تبدیلیاں واقع ہوگئیں، لیکن کراچی سے کوئٹہ تک۔ بحیرہ عرب کے ساحل سے طور خم تک۔ نسل در نسل یہ نعرہ گونج رہا ہے۔

جب تک سورج چاند رہے گا… بھٹو تیرا نام رہے گا۔

زندہ ہے بھٹو…زندہ ہے… کے نعروں نے بھٹو کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ریاست کاکوئی بھی جبر اور تشدد عوام کے ذہنوں سے ذوالفقار علی بھٹو کے افکار کو مٹا نہ سکا۔ مخالفین کی تمام تر مخالفت اور پروپیگنڈے کے باوجود 1970ء سے آج بھی پیپلز پارٹی کو ملنے والا ووٹ بھٹوکے نام پر ہی مل رہا ہے۔ ایسی محبت، ایسی عقیدت، ایسی وابستگی کی دوسری مثال دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ بھٹو کو عوام سے جداہوئے 38 سال بیت گئے اس کے باوجود بھٹو عوام کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔

بھٹو کی پاکستان سے والہانہ محبت اور عقیدت کسی شک وشبہ سے پاک تھی،وہ جرات، جواں مردی اور حب الوطنی کی علامت تھے، اس کا ثبوت سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی وہ تقریر تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’ہم لڑتے رہیں گے اس لیے کہ ہم حق پر ہیں۔ ہم ایک اصول کی خاطر لڑرہے ہیں۔ ہم اپنے عہد کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جو حق خود ارادیت کے لیے ہم نے کیا ہے۔ ہم ہر صورت میں حق خود اداریت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور آج ہم ہی نہیں ایشیا اور افریقہ کی ہر قوم اس معاملے میں متفق ہے۔

حق خودارادیت کا یہ اصول جس کے لیے ہم لڑرہے ہیں، ایک ایسی متحرک قوت ہے جسے اب کوئی طاقت شکت نہیں دے سکتی اور ہم یہ جنگ لڑتے رہیں گے، پورے عزم کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھیں گے اور دنیا کی طاقتیں بھی ہمارے خلاف صف آرا ہورہی ہیں اْن سب کا مقابلہ کریں گے‘‘ ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی تقریر میں جن قوتوں کی طرف اشارہ کیا تھی ان قوتوں نے ایسے حالات پیدا کیے کہ پاکستان دولخت ہوگیا۔ جن مصائب اور مشکل حالات میں بھٹوکو باقی ماندہ پاکستان ملا تھا اس کو مزید تقسیم کرنے کی سازشیں بھی ہو رہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1971ء کے سانحے کے بعد ہاری ہوئی قوم کو نیا حوصلہ دیا اور ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی، پاکستانی قوم کو متحد کیا ، پاکستان کو آئین دیا، ایک ایسا آئین جس نے پاکستان کے صوبوں کو یکجا کیا ہوا۔ امریکا کی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر ناقابل تسخیر بناگئے۔

پاکستان میںآج 1970ء جیسے حالات نہیں ہیں۔ اْس دورکی نسبت آج غربت، بیماری، بیروزگاری اورمحرومی زیادہ بڑھ چکی ہے۔ آج کے حالات میں سوشلزم کی ضرورت کم نہیں ہوئی بلکہ کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ نہ ہونا اور انقلاب کے ادھورا رہ جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک آمرکے ہاتھوں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس حقیقت کو اپنی آخری تحریر ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ میں ان الفاظ میں بیان کیاتھا ’’میں اس آزمائش میں اس لیے مبتلا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو پھر سے جوڑنے کے لیے متضاد مفادات رکھنے والے طبقات کے درمیان آبرومندانہ اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانی راستہ، قابل قبول حل یا مصالحت محض یوٹو پیا (دیوانے کاخواب) ہے۔ فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے اورا س کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا۔‘‘

ذوالفقار علی بھٹوکی سیاست اور جدوجہد ایک مقصد عوام کو ان کے حقوق دلانا تھا تو دوسری جانب وہ آمروں اور جابروں سے بھی لڑتے رہے۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا،ا یوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی، جو پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت قوت و جبراور استحصال کی بلندی کو پہنچ چکی تھی۔ایوب خان نے طاقت کے نشے میں جمہوری سیاست کے تصورکو ہی دفن کر دیا تھا اْس جابر اور آمرکو للکارنے والا ذوالفقار علی بھٹو ہی تھا جس نے بالاخر آمریت کا تختہ الٹا۔

تب سے آج تک یہ جنگ جاری ہے۔ جمہوریت آمریت پر غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو آمریت جمہوریت کو چت کردیتی ہے۔ یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور پرویز مشرف اس سلسلے کا تسلسل ہیں۔ پاکستان کی اکثر جماعتیں آمریت کو خوش آمدید کہتی ہیں اور اس کی بیساکھی بن کر حکومت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آمر یت کے خلاف جد وجہد کی۔ پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے قیدوبند اور جبروتشدد کا سامنا کیا۔ ان سب سے باتوں سے بڑھ کر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک آمر کے آگے سرخم کرنے کی بجائے تختہ دار پر لٹکنا منظورکیا اور پھر محترمہ بینظیر بھٹو جمہوریت کی بحالی کے لیے شہید ہوئیں۔یہ لازاوال قربانیاں پیپلز پارٹی کو دوسری جماعتوں سے منفرد بناتی ہیں۔ان قربانیوں کی وجہ سے پارٹی کو غریب، ہاری، مزدور اورمحنت کشوں کی امنگوں کی ترجمان کہا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔